Tuesday, October 12, 2010

پاکستان کے برطرف کیے جانے والے آرمی چیف جنرل ضیاء الدین بٹ کا کہنا ہے کہ جنرل پرویز مشرف ہمیشہ فرار کا راستہ نگاہ میں رکھتے تھے اور بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کو بغاوت کی ناکامی کی صورت میں انہوں نے ملک سے بھاگنے کا بندوبست کر رکھا تھا۔

جنرل ضیاالدین بٹ
جنرل ضیالدین بٹ کو وزیر اعظم نے فوج کا سربراہ تعینات
کیا تھا
پاکستان کے برطرف کیے جانے والے آرمی چیف جنرل ضیاء الدین بٹ کا کہنا ہے کہ جنرل پرویز مشرف ہمیشہ فرار کا راستہ نگاہ میں رکھتے تھے اور بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کو بغاوت کی ناکامی کی صورت میں انہوں نے ملک سے بھاگنے کا بندوبست کر رکھا تھا۔
 ایک خصوصی گفتگو میں ضیاء الدین بٹ نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف ہمیشہ محفوظ راستہ اپنے لیے تیار رکھتے تھے اور اسی وجہ سے انہوں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ بغاوت کی ناکامی کی صورت میں کسی دوسرے ملک بھاگ جائیں اور وہاں جاکر سیاسی پناہ لے لیں۔

ضیاء الدین بٹ نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف جس طیارے میں سوار تھے اس کی اس میں وافر مقدار میں ایندھن موجود تھا اور جان بوجھ کر اس وقت تک جہاز کو نیچے نہیں اتارا گیا جب تک بغارت کامیاب نہیں ہوگئی۔
 
جنرل ضیالدین بٹ کو وزیر اعظم نے فوج کا سربراہ تعینات کیا تھا

گیارہ سال پہلے بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کو پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس واقعہ کے اہم کردار جنرل ضیاالدین بٹ تھے جنہیں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے مشرف کو ہٹا کر فوجی سربراہ مقرر کیا تھا۔
تاہم جنرل پرویز مشرف کی فوجی کارروائی کے نتیجے میں جہاں نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی وہاں ہی جنرل ضیاءالدین بٹ کو برطرف کرکے انہیں دو سال تک قیدِ تنہائی میں رکھا گیا۔
جنرل ضیاء الدین بٹ اب وزیر اعلیْ پنجاب شہباز شریف کی انسپکشن ٹیم کے سربراہ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
جنرل ضیاء الدین کے بقول جنرل پرویز مشرف کے آرمی چیف بننے کے بعد ہی پہلے دن سے یہ نیت تھی کہ وہ اقتدار میں آئیں لیکن کارگل میں پسپائی کے بعد انہوں نے اپنے خلاف کسی ممکنہ کارروائی سے بچنے کے لیے خود حکومت میں آنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور شروع کردیا تھا۔
ان کے بقول جس وقت وزیر اعظم ہاؤس پر فوج کے جوانوں نے چڑھائی شروع کی تو وہ خود وزیر اعظم ہاؤس سے باہر آگئے اور یہ کوشش کی کہ فوج کی آپس میں فائرنگ نہ ہو کیونکہ وزیر اعظم کے محافظ زیادہ تربیت یافتہ تھے جبکہ دوسری طرف نئے بھرتی ہونے والے سپاہی تھے۔
جب جنرل ضیا الدین بٹ سے یہ پوچھا گیا کہ آرمی چیف مقرر ہونے کے بعد کیا انہیں برطرف ہونے والے فوجی جنرل پرویز مشرف کے ردعمل کا اندازہ تھا اور انہوں نے اس کے تدراک کے لیے اقدامات کیوں نہیں کیے تو جنرل ضیالدین بٹ نے کہا کہ پاکستان میں پہلے بھی فوجی بغاوت ہوئی ہے اور اس میں مزاحمت اس لیے نہیں کی گئی کہ کہیں فوج آپس میں نہ لڑ پڑے۔
ان کے بقول جس وقت وزیر اعظم ہاؤس پر فوج کے جوانوں نے چڑھائی شروع کی تو وہ خود وزیر اعظم ہاؤس سے باہر آگئے اور یہ کوشش کی کہ فوج کی آپس میں فائرنگ نہ ہو کیونکہ وزیر اعظم کے محافظ زیادہ تربیت یافتہ تھے جبکہ دوسری طرف نئے بھرتی ہونے والے سپاہی تھے۔
جنرل ضیاء الدین بٹ کا کہنا ہے کہ انہوں نے موقع پر یہ ہدایت کی کہ کوئی گولی نہیں چلائے گا اور بقول ان کے انہوں نے خود وزیر اعظم کے محافظوں کو غیر مسلح کروایا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر فوج آپس میں بٹ جاتی تو پھر شائد ملک ہی باقی نہ رہتا اور اسی وجہ سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی۔ جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ کو تو جمہوریت بچانے کے لیے آرمی چیف مقرر کیا گیا تھا لیکن آپ نے فوج کا ساتھ دیا تو جنرل ضیاء نے کہا کہ جمہوریت کی بساط تو پہلے کئی بار لیپٹی گئی لیکن اس کے باوجود جمہوریت ملک میں بحالی ہوئی جبکہ میں بغاوت ہوجائے تو وہ ملک کے لیے خطر ناک ہوگا۔
برطرف سابق آرمی چیف ضیاالدین کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی طرف سے انہیں اچانک آرمی چیف بنانے کافیصلہ خود ان کے لیے بھی حیرت سے کم نہیں تھا کیونکہ آرمی چیف کے عہدے پر ترقی کے بعد فوری طور ان کو جو بیچ لگائے گئے وہ ان کے ایک ماتحت فوجی افسر کے تھے ۔
جنرل ضیاء الدین بٹ نے بتایا کہ ایک بریگیڈیر نے اپنے بیچ اتار کر دیے اور ماچس کی تیلی مدد سے وہ بیچ ان کی وردی پر لگائے گئے کیونکہ اس کا کوئی کلپ نہیں تھا۔
جنرل ضیا الدین بٹ نے بتایا کہ انہوں نے’اِن دی لائن آف ڈیوٹی‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی ہے جو اس سال کے اختتام پر لندن سے شائع ہوگی۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ان کا شریف خاندان سے کوئی تعلق نہیں تھا اور پہلے آرمی چیف کے عہدے پر ان کے نام پر غور کیا گیا تھا۔
ضیا الدین بٹ نے کہا کہ بارہ اکتوبر کو انہیں حراست میں لے لیا گیا اور دو برس تک انہیں قید تنہائی میں رکھا گیا اور اس دوران جنرل محمود نے پہلی رات ہی یہ پیغام دیا کہ وہ جنرل مشرف کے ساتھ مل جائیں لیکن بقول ان کے انہوں نے اس پیشکش کو مسترد کردیا۔
جنرل ضیا الدین نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ ان کو کورٹ مارشل کیا ہوا تھا انہوں نے بتایا کہ ان کو ایک انتظامی کارروائی کے تحت ملازمت سے برطرف کیا گیا اور ان کی تمام مراعات ختم کردی گئیں اور ان کی جائیدار ضبط کرلی گئی۔
انہوں نے کہا کہ انہیں آرمی چیف تو اس وقت کے صدر رفیق تارڑ کے دستخطوں سے لگایا گیا لیکن ان کو عہدے سے ہٹانے کے لیے رفیق تارڑ نے دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ انہیں آرمی چیف تو اس وقت کے صدر رفیق تارڑ کے دستخطوں سے لگایا گیا لیکن ان کو عہدے سے ہٹانے کے لیے رفیق تارڑ نے دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ کہ اپنے بچوں کی پڑھائی کے اخراجات پورے کرنے کے لیے انہیں پھر انجنئیرنگ کے شعبے میں ملازمت کرنی پڑی اور اسی وجہ سے اب انہوں نے پنجاب حکومت کی طرف سے ملازمت کی پیشکش کو قبول کیا۔
جنرل پرویز مشرف کے سیاسی مستقبل کے بارے میں جنرل ضیاء الدین کہتے ہیں کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف بہت جذباتی فیصلے کرتے ہیں اور ان کے خیال میں جنرل مشرف ایک غلط فیصلہ کربیٹھے۔ان کے بقول جو لوگ جنرل مشرف کو یہ کہہ رہے ہیں وہ کہ وہ مقبول لیڈر ہیں وہ بھی ان کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ کل پرویز مشرف یہ کہیں گے کہ ان کو دھکا کس نے دیا ہے۔
جنرل ضیاء الدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی برطرفی کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے تاہم بقول ان کے حکومت چاہے تو وہ تمام مراعات بحال ہوسکتی ہیں جو ان کی برطرفی کے بعد واپس لے لی گئیں تھیں۔
جنرل ضیا الدین بٹ نے بتایا کہ انہوں نے ’اِن دی لائن آف ڈیوٹی‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی ہے جو اس سال کے اختتام پر لندن سے شائع ہوگی۔

No comments:

Post a Comment