ویسے تو قطب شمال و جنوب غالبا ایسے علاقے ہیں جہاں بھوری رنگت والے نہ ہوں لیکن اس کے علاوہ دنیا کا ایسا کوئی خطہ نہیں جہاں پاکستانی نہ پائے جاتے ہوں۔ میرے جیسے پاکستانی کے لیے ایسے کسی علاقے کا سوچنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ چاہے برطانیہ ہو یا امریکہ، سپین ہو یا اردن کسی نہ کسی پاکستانی سے کسی نہ کسی جگہ راستے ٹکرا جائیں گے۔ لیکن مرکزی یورپ کے ایک اہم ملک پولینڈ میں ایک ہفتے کے قیام کے دوران پاکستانی سفارت خانے کے اہلکاروں کے علاوہ کوئی پاکستانی نہیں مل پایا۔ اس پر کافی تجسس بھی ہوا اور تشویش بھی۔
کیسے یہاں کی منافع بخش منڈی پاکستانیوں سے بچ پائی ہے، کیسے یہاں غیرقانونی تارکین وطن بڑی تعداد میں نہیں، کیسے لاہوری تکہ ہاوس یہاں نہیں بن پایا؟
پولینڈ میں تعینات پاکستانی سفیر مراد علی کی جانب سے جب ہمیں وارسا میں قیام کے آخری دن دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا گیا تو خوشی نہ صرف کسی پاکستانی سے ملنے کی تھی بلکہ لالچ کسی حلال خوراک کی بھی تھی۔ جیسی یک نسل پولینڈ کی آبادی ہے ویسی ہی یہاں کی محدود کھانے کی ورائٹی بھی ہے۔ افغانی منتو کی طرز کی پیروگی یا مچھلی ہی قدرے محفوظ خوراک ہے جو کھائی جاسکتی ہے۔ لیکن اگر سو فیصد مذہبی احتیاط کرنی ہے تو واحد محفوظ خوراک تازہ سلاد ہے۔ ہمارے گائیڈ میرے دو پختون صحافی ساتھیوں کے ساتھ مذاق میں چھیڑتے رہتے کہ ’کہیں آپ لوگ گھاس کھا کھا کر اونٹ ہی نہ بن جائیں۔‘
پاکستانی سفیر مراد علی نے جو خود بھی جنوبی کوریا سے ڈیڑھ ماہ قبل ہی تبدیل ہوکر یہاں آئے ہیں بتایا کہ پولینڈ میں قانونی طور پر آئے ہوئے پاکستانیوں کی تعداد چند سو ہے لیکن غیرقانونی شاید چند ہزار ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانیوں کے یہاں آنے میں بڑی رکاوٹ براہ راست پاکستان اور پولینڈ میں فضائی یا دیگر رابطوں کی کمی ہے۔
میرے خیال میں ٹیکسٹائل، چاول، کھیلوں کا سامان ایسے چیزیں ہیں جہاں مزید تجارت کی گنجائش موجود ہے۔ لیکن ساتھ ہی پولینڈ کی یورپ میں مرکزی پوزیشن ہونے کی وجہ سے پاکستانی تاجر یہاں ایک مرکز بنا کر یہاں سے دیگر یورپی ممالک تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں
مراد علی
’میرے خیال میں ٹیکسٹائل، چاول، کھیلوں کا سامان ایسے چیزیں ہیں جہاں مزید تجارت کی گنجائش موجود ہے۔ لیکن ساتھ ہی پولینڈ کی یورپ میں مرکزی پوزیشن ہونے کی وجہ سے پاکستانی تاجر یہاں ایک مرکز بنا کر یہاں سے دیگر یورپی ممالک تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔‘
رابطے وہیں بنتے ہیں جہاں خواہش ہو۔ پولینڈ کی وزارت خارجہ کے ایک سینئر اہلکار کرزیسٹاف دوبرولسکی کا کہنا تھا کہ سردمہری دونوں جانب سے تھی۔ ’اگر پولینڈ کی پاکستان میں دلچسپی نہیں تھی تو پاکستان کا بھی یہی حال تھا۔ اب وقت کے ساتھ ساتھ صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔‘
پولینڈ کا نومولود پاکستان کی فضائیہ کے قیام میں کردار کافی پرانا ہے۔ پولش پائلٹوں اور انجنیئروں نے قیام پاکستان کے فوراً بعد اس کی فضائیہ کے قیام میں اہم کردار تھا۔ ان پائلٹوں میں سے چند نے آج تک پاکستان کو اپنا مستقل گھر بنایا ہوا ہے۔
البتہ حالیہ دنوں میں دونوں ممالک کی جانب سے تعلقات میں گرمجوشی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ صدر مشرف نے سال دو ہزار سات میں وارسا کا دورہ کیا تو گزشتہ دنوں موجودہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی یہاں کا چکر لگا کر لوٹے ہیں۔ دوسری جانب پولینڈ کے حکام کے پاکستانی دوروں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
سب سے زیادہ حوصلہ افزا بات وارسا یونورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف اوریئنٹل سٹڈیز میں اردو کے معلم کی تقرری ہے جو جلد متوقع ہے۔ اس کے علاوہ کریکو شہر میں واقع وسطی یورپ کی دوسری قدیم ترین یونیورسٹی میں پاکستان سے متعلق شعبے کا جلد قیام بھی ہے۔ اس کے لیے پشاور میں اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں سوشل سڈیز کے ایک سینئر پروفیسر ڈاکٹر نوشاد کی تقرری بھی ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کے تاجروں کے وفود کے دورے بھی متوقع ہیں۔
پولینڈ بھی یورپی اتحاد کا حصہ بننے کے بعد اب عالمی سطح پر ایک متحرک کردار ادا کرنے پر چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے مجبور ہے۔ یہی مجبوری اسے افغانستان میں بھی لائی ہے اور اسی وجہ سے اس کے لیے اب نہ صرف یہ جنگ زدہ ملک بلکہ اس کا ہمسایہ پاکستان بھی اہم ہے۔ پولینڈ کا قدرتی گیس کے لیے روس پر بھاری انحصار ہے۔ اسے کم کرنے کے لیے وہ دنیا بھر میں گیس کی تلاش کے منصوبوں میں حصہ لے رہا ہے۔ اسی وجہ سے وہ پاکستان میں بھی ہے۔
گیس کی تلاش میں مصروف ایک پولش انجینیئر کے طالبان کے ہاتھوں اِغوا اور قتل انہیں کوششوں کے دوران پیش آنے والا ایک حادثہ تھا۔ پولش حکومت کم از کم اس واقعے کو اب تک نہیں بھولی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے گزشتہ دنوں دورے میں پولش حکام نے یہ مسئلہ ایک مرتبہ پھر اٹھایا تھا۔
پولینڈ کی وزارت خارجہ میں ایشیا کے شعبے کے ڈپٹی ڈائریکٹر کرزیسٹاف دوبرولسکی نے بتایا کہ مذاکرات کے ایجنڈے پر یہ مسئلہ ایک اہم موضوع تھا۔ ’ہم چاہتے ہیں کہ اس قتل میں ملوث افراد کو سزا ہو۔ حکومت پاکستان دو ملزمان کا عدالتی مقدمہ چلا رہی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس مقدمے کا فیصلہ جلد ہوگا۔ لیکن ہم اس عدالتی کارروائی کی وجہ سے زیادہ دباؤ نہیں ڈال سکتے ہیں۔‘
دوسری جانب پولینڈ شاید پاکستان کاروباری طبقے کے لیے ایک ’ان ایکسپلورڈ‘ ملک ہے۔
سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے پاکستانی سفیر مراد علی نے بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان اس وقت ڈیڑھ سو ملین ڈالر کی مشترکہ تجارت کا حجم ہے جوکہ باآسانی پانچ سو ملین تک پہنچائی جاسکتی ہے۔
اس لیے امید کی جاسکتی ہے کہ ہمارے اگلے دورے تک (اگر ممکن ہوسکا) تو اگر دونوں ممالک کے درمیان براہ راست پروازیں نہ سہی کم از کم وارسا میں ایک پاکستانی حلال خوراک کا ریسٹورانٹ ضرور کھل جائے گا تاکہ آنے والوں کا کھانے پینے کا مسئلہ تو حل ہو۔
No comments:
Post a Comment