پاکستان کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے صدارت کا عہدہ چھوڑنے کے اعلان کے بعد، ان کو دوبارہ میں نے اس وقت دیکھا جب وہ امریکی ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹیمور میں لیکچر دینے آئے ہوئے تھے۔
پریزیڈنٹ ہاؤس سے ان کے نکلنے کے بعد ہی یہ قیاس آرائیاں شروع ہوگئی تھیں کہ ان کا اگلا پڑاؤ سیاست کا میدان ہوگا، گو یہ بات کہنے والے پتہ نہیں کیوں یہ بھول گئے تھے کہ گزشتہ نو دس برس سے وہ سیاست کے داؤ پیچ نہیں کھیل رہے تھے تو اور کیا کر رہے تھے۔وہ میری توقع کے بلکل برعکس لندن کے ایک متوسط علاقے کے ایل فلیٹ میں رہائش پذیر ہیں
لیکن بیچ لیکچر جب ایک بلوچ کارکن نے ’قاتل قاتل ۔۔۔ ڈکٹیٹر ڈکٹیٹر‘ کے نعرے لگانا شروع کیے تو فوجی ڈسپلن کے قائل جنرل یہ انڈسپلن برداشت نہیں کر سکے اور اپنا لیکچر درمیان میں چھوڑ کر اس بلوچ کے ساتھ توتو میں میں کرنے لگے جنہوں نے ان کی بات میں خلل ڈالا تھا۔
لیکن مجھ سمیت ہال میں بیٹھے بیشتر لوگوں کی بھویں اس وقت تن گئیں جب جنرل مشرف نے بلوچ سے براہ ہ راست مخاطب ہوتے کہا کہ ’بلوچستان میں میں نے بہتوں کو سیدھا کردیا تھا اور تم وہاں ہوتے تو تم کو بھی سیدھا کردیتا۔‘
جنرل مشرف کے طریقہ حکمرانی اور سیاست سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ایک چیز ان کے بارے میں وثوق سے کہی جاسکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان کے دل میں جو آتا ہے وہ کہہ ڈالتے ہیں (چاہے کہنے سے پہلے انہوں نے اس بات کے مضمرات کے بارے میں سوچا ہو یا نہیں)۔
حال میں جنرل مشرف نے اپنی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے باقائدہ قیام کا اعلان کیا
’فوج تو اقتدار میں خود نہیں آتی۔ یہ سیاستدان ہی ہیں جو ان کے ترلے کرتے ہیں کہ سیاست میں آئیں۔ میرے پاس بھی بڑے سیاستدان آتے تھے‘ جنرل مشرف نے کہا۔
نواز شریف کہتے ہیں کہ آپ نے دو مرتبہ آئین توڑا اس لیے آپ کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ چلنا چاہیے؟ میں نے سوال کیا۔ ’آرٹیکل چھ۔۔۔ کس چکر میں بھائی؟‘ جنرل مشرف نے کہا ’میں نے جو کچھ بھی کیا ہے اس کی سپریم کورٹ نے توثیق کی ہے اس کی پارلیمنٹ نے توثیق کی تو پھر مقدمہ کیسا؟‘
’نواز شریف کے پیٹ میں داڑھی ہے میں اسے کلوزٹ طالبان کہتا ہوں‘ جنرل مشرف نے سابق وزیر اعظم سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں یہ کہا۔
نواز شریف کہتے ہیں کہ آپ نے دو مرتبہ آئین توڑا اس لیے آپ کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ چلنا چاہیے؟ میں نے سوال کیا۔ ’آرٹیکل چھ۔۔۔ کس چکر میں بھائی؟‘ جنرل مشرف نے کہا ’میں نے جو کچھ بھی کیا ہے اس کی سپریم کورٹ نے توثیق کی ہے اس کی پارلیمنٹ نے توثیق کی تو پھر مقدمہ کیسا؟‘
جنرل مشرف نے حکمرانوں، سیاستدانوں، ملاؤں، عدالتوں، اپنے سابق اتحادیوں سب کو کھری کھری سنائی ہے۔ بس ان کا اعتبار ان سوٹ بوٹ والے متوسط افراد پر ہے جو ان کے خیال میں پاکستان کی سیاست کا نقشہ بدل کر رکھ دیں گے۔
No comments:
Post a Comment