نا کافی شواہد کے با عث بری ہونے والوں میں ڈاکٹرعبدالرزاق، محمد الیاس، محمد سرفراز، محمد نعیم، اسامہ بن وحید، محمد رضوان، محمد ندیم ذیشان خلیل، ڈاکٹرمحمد عثمان، میرافضل، راناالیاس اور تحسین اللہ جان شامل ہیں۔
انہیں دہشت گردوں نےملک میں انت مچادی رہا ہونے والوں نے ملک بھرمیں د ہشت گردی
کی انتہائی سنگین وارداتیں کیں پولیس اور پراسیکیوشن ڈپارٹمنٹ نے گرفتار دہشت گردوں کو صاف بچا لیا۔
پنجاب نے تمام ملزمان کی رہائی کا ذمہ دار فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو قرار دیدیا
فوج نے نہ تو کسی واردات کا مقدمہ درج کرایا اور نہ ہی گواہی دی۔
سارا کام پولیس نے خود کیا فوج اور ایجنسیوں کی طرف سے کوئی بھی عدالت میں پیش نہ ہوا
دہشت گردوں کی رہائی ایک ایسا حساس معاملہ ہے جس پر تمام سیا سی جماعتوں کو ایک ہونا چاہیے تھا اور اعلٰی سطح پراس بات کی انکوائری کی جانی چاہیے تھی کہ ایسا کیسے اور کیوں ہوا؟
لیکن اس بات کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی گئی اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری حکومتیں د ہشتگردی کے عفریت کو ختم کرنے میں کس حد تک سنجیدہ ہیں۔
اس کا سیدھا مطلب یہ بھی ہوا کہ پاکستان کے عوام د ہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہیں اور حکومتی نااہلیوں کی وجہ سے تمام دہشت گرد رہا ہوچکے ہیں۔
پنجاب میں د ہشت گردی کی پے در پے کاروائیوں اور اس میں سینکڑوں بے گناہوں
کی شہادت کے بعد وفاقی حکومتوں کے ذمہ داران میں لفظوں کی جنگ جاری ہے۔
یہ
جنگ اس وقت شدت اختیارکرگئی جب لاہورمیں داتادربارپرخودکش حملےکےبعداس کےذمہ
داروں کا تعین کرنے کے لیے تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔
صوبائی حکومت کی طرف سےانٹیلی جنس شئیرنہ کرنےکے الزام کو وزیرداخلہ رحمان ملک نے مستردکردیا۔
جبکہ سی آئی ڈی پنجاب نے اس تنبیہی خط کی توثیق کردی جس کےتحت داتا دربار پر خودکش حملےکی اطلاع دیتےہوئےپولیس کوحفاظتی انتظامات بہتربنانےکو کہا گیا تھا۔
تاہم اطلاع کےباوجود پولیس سوئی رہی اورد ہشت گردوں کو ایک ایسی مقدس جگہ دہشت گردی کی کاروائی کرنے کا موقعہ مل گیاجو تمام مکاتب فکر کے نزدیک قابل احترام ہے۔
اس طرح پنجاب حکومت کی ناکامی ثابت ہو گئی۔تاہم یہ تو وہ معاملہ ہے جو سب کے سامنے ہےلیکن پنجاب حکومت نےاس واقعہ میں اپنی نالائقی اورغیرذمہ داری چھپانے کےلئےعوام کے سامنے کئی اور ایشو کھڑے کر دیے جس کی وجہ سے داتا دربارمیں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائی اور تحقیقات میں ہونے والی پیش رفت سے لوگوں کی توجہ ہٹ گئی۔
پنجاب اسمبلی میں میڈیا کے خلاف قرارداد مذمت پیش کر کے مسلم لیگ نوازنے اپنے آ پ
کوننگا کردیا۔ اس مذمتی قرارداد پر ملک بھرمیں احتجاج جاری ہےتاہم اگر
دیکھا جائے توان معاملات سے زیادہ ایک اور بڑا معاملہ بھی ہےجو پنجاب حکومت
کی ناکامی،نالائقی اور غیرذمہ داری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
پنجاب میں اگر گذ شتہ دو سالوں میں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائیوں کا جائزہ لیا جائےتو پتہ چلے گا کہ یہ تمام کاروائیاں انہی دہشت گردوں نے کیں جنہیں ا نٹیلی جنس ایجنسیوں نے پہلے دن رات کی تگ ودو کے بعد گرفتارکیااور بعد ازاں پنجاب حکومت کی کمزور پراسیکیوشن اورشواہد اعلٰی عدالتوں میں پیش نہ کرنے کے سبب رہا ہو گئے تھے۔
یہ حقیقت کیسے چھپائی جا سکتی ہے کہ صرف پنجاب میں انسداد دہشت گردی کی
خصوصی عدالتوں سے میریٹ ہوٹل اور مناواں ٹریننگ سکول کے حملوں کے علاوہ
صوبہ بھر میں خود کش حملوں،بم دھماکہ،فرقہ وارانہ دہشت گردی کی کاروایئوں
میں ملوث 473 مقدمات کے ملزمان بری ہو چکے ہیں۔
یہاں لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پرہونے والے حملے کا ذکر کیا جائے یا اس سے قبل اسلام آباد میں میریٹ ہوٹل پر ہونے والے خود کش حملے کا،یا پھرجی ایچ کیو میں دہشت گردوں کے خوفناک حملے کی بات کی جائے،ان سب کے تانے بانے ایک ہی جگہ سے ملیں گے اور ان تمام حملوں کی تحقیقات کے بعد یہی بات سامنے آئی کہ یہ تمام حملے
انہی دہشت گردوں نے کئے جنہیں پہلے گرفتار کیا گیا اور بعد ازاں اعلٰی عدالتوں نے انہیں اس بناء پر رہا کر دیا کہ ان کے خلاف شواہد ناکافی ہیں۔
مناواں سینٹرحملہ کیس میں ہجرت اللہ اور میریٹ ہوٹل حملہ کیس میں جی ایچ کیو سے پکڑے جانے والے ماسٹرمائنڈ ڈاکٹر عثمان کے بری ہونے کا اعلٰی عدلیہ نے بھی سخت نوٹس لیا۔ لیکن ان کےاس نوٹس کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔
یہ ایک ایسا حساس معاملہ ہےجس پر تمام سیاسی جماعتوں کو ایک ہونا چاہیے تھااور اعلٰی سطح پر اس بات کی انکوائری کی جانی چاہیے تھی کہ ایسا کیسے اور کیوں ہوا؟ لیکن اس بات کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی گئ۔اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری حکومتیں د ہشت گردی کے عفریت کو ختم کرنے میں کس حد تک سنجیدہ ہیں۔اس کا سیدھا مطلب یہ بھی ہوا کہ پاکستان کے عوام د ہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہیں اور حکومتی نااہلیوں کی وجہ سے تمام د ہشت گرد رہا ہوچکے ہیں۔
اگر اس حوالے سے سرکاری اعدادو شمار کاجائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پنجاب میں 2009ء کے دوران انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں نے دہشت گردی کے629 مقدمات کے فیصلے کئے جن میں دہشت گردی کے 471مقدمات میں ملزموں کو
بری کیا گیا جبکہ صرف 158 مقدمات کے ملزموں کو سزا سنائی گئی۔
یہاں اگر راولپنڈی اور اسلام آباد میں گذشتہ اڑھائی سال کے دوران دہشت گردی
کے واقعات میں ملوث افراد کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جڑواں
شہروں میں دہشت گردی کے سات اہم واقعات میں گرفتار ہونے والے افراد تفتیش
کرنے والے اداروں کی جانب سےٹھوس شواہد پیش نہ ہونے کی بنا پر مقدمات سے
بری ہو چکے ہیں۔
ان مقدمات میں میریٹ ہوٹل کے مرکزی دروازے پر بارود سے بھرے ہوئے ٹرک سے
ہونے والا حملہ،اسی ہوٹل کی کار پارکنگ میں ہونے والا بم دھماکہ،چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی معزولی کے دوران اسلام آباد کے سیکٹر ایف ایٹ مرکز میں اُن کے استقبالیہ کیمپ پر ہونے والا خودکش حملہ،آبپارہ مارکیٹ میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر ہونے والے خودکش حملے،راولپنڈی میں فوج کے جنرل ہیڈ کوراٹر کے قریب انٹر سروسز ا نٹیلی جنس(آئی ایس آئی) کی بس پر ہونے والاخودکش حملہ اورفوج کے سرجن جنرل لیفٹینٹ جنرل مشتاق بیگ پر ہونے والے خودکش حملےکے علاوہ کامرہ میں پاکستانی فضائیہ کے بس پر ہونے والا خودکش حملہ بھی شامل ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق ان واقعات میں ڈیڑھ سو کے قریب افراد ہلاک اور تین سو سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں ہلاک ہونے والوں
میں اکثریت کا تعلق فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تھا۔
تحقیقاتی اداروں نے ان حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں کئی افراد کو حراست میں لے لیا۔ ان پر مقدمات چلے تاہم پولیس ان پرمقدمات کو ثابت نہ کر سکی اور ان حملوں میں ملوث ملزمان کی اکثریت رہا ہو کر دوبارہ دہشت گردی کی کاروائیوں میں مشغول ہو گئی۔ ان مقدمات میں بری ہونے والوں میں ڈاکٹرعبدالرزاق،محمد الیاس،محمدخلیل،ڈاکٹرمحمد عثمان،امیرافضل،راناالیاس اور تحسین اللہ جان شامل ہیں۔
میریٹ ہوٹل کیس میں دو افراد کواشتہاری قرار دیا گیا۔ جبکہ ان حملوں میں گرفتار ہونے والے ڈاکٹرعبدالرزاق پاکستان ریلوے کے ہسپتال میں ڈاکٹر تھے۔
وفاقی حکومت کی طرف سے میریٹ ہوٹل پر حملے کے مقدمے میں رہا ہونے والے
ملزمان کی دس روز کے لیے نظر بندی کے احکامات جاری کر دیئے،بعدازاں لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کے حکم پر ان افراد کی نظر بندی کےاحکامات ختم کر دیے گئے۔ اس طرح یہ ملزمان رہا ہو گئے۔
رہا ہونے والوں میں ڈاکٹرعثمان کا نام بھی شامل تھا۔ اسی ڈاکٹرعثمان نے بعدازاں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ کیااور اس کے بعد وہ جی ایچ کیو پر ہونے والے حملے میں بھی ملوث رہا۔بلکہ وہ جی ایچ کیو پر ہونے والے حملوں کا ماسٹرمائنڈ بھی تھا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فوج کے سرجن جنرل پر حملہ کرنے والے گروہ
کے ارکان نے ڈنمارک سفارت خانے کے باہر ہونے والے خود کش حملے اور نیول وار
کالج کے باہر ہونے خود کش حملوں میں بھی ملوث تھے۔ اس کے علاوہ 2009ء میں
انسداد دہشت گردی کی عدالت اور راولپنڈی سابق صدر پرویزمشرف کے طیارے کو
نشانہ بنانے کے الزام میں گرفتار ہونے والے دو افراد داکٹر نیاز اور مظہرالحق کو بھی عدم ثبوت کی بنا پر اس مقدمے سے بری کر دیا گیا تھا۔
آئی ایس آئی کی بس اور پاکستانی فوج کے سرجن جنرل پرہونے والے مقدمات کی پیروی بہترانداز میں نہ کرنے کی بنا پران مقدمات میں حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے پبلک پراسیکیوٹر صفدر جاوید کو معطل کر کے اُس کے خلاف تحقیقات کاحکم دے دیا گیا لیکن اس کا وہی نتیجہ نکلا جو نکلنا چاہیے تھا کہ آج تک اس بات کا پتہ ہی نہیں چل سکا کہ اس تحقیقات کا کیا بنا؟
تاہم پنجاب حکومت ان ملزمان کی رہائی کی اور ہی داستان سناتی ہے۔ پنجاب حکومت کے مطابق ان تمام ملزمان کی رہائی کی ذمہ دار صوبائی حکومت نہیں بلکہ فوج اور وفاقی حکومت کے دائرہ احتیار میں آنے والی انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں۔
No comments:
Post a Comment