Thursday, October 14, 2010

ساقي نامہ اسد اللہ خان غالب

ا خیمہ زن کاروان بہار
ارم بن گیا دامن کوہسار

گل و نرگس و سوسن نسترن
شہیدِ ازل لالہ خونیں کفن

جہاں چھپ گیا پردہء رنگ میں
لہو کی ہے گردش رگِ سنگ میں

فضا نیلی نیلی، ہوا میں سرور
ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور

وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی
اٹکتی، لچکتی، سرکتی ہوئی

اچھلتی، پھسلتی، سنبھلتی ہوئی
بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی

رکے جب تو سِل چیر دیتی ہے یہ
پہاڑوں کے دل چیر دیتے ہے یہ

ذرا دیکھ اے ساقئ لالہ فام
سناتی ہے یہ زندگی کا پیام

پلادے مجھے وہ مئے پردہ سوز
کہ آتی نہیں فصلٕ گل روز روز

وہ مے جس سے روشن ضمیر حیات
وہ مے جس سے ہے مستئ کائنات

وہ مے جس میں ہے سوز و ساز ازل
وہ مے جس سے کھلتا ہے راز ازل

اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے

زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے، ساز بدلے گئے

ہوا اس طرح فاش راز فرنگ
کہ حیرت میں شیشہ بازِ فرنگ

پرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے

گیا دور سرمایہ داری گیا
تماشا دکھا کر مداری گیا

گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے

دل طورِ سینا و فاراں دو نیم
تجلی کا پھر منتظز ہے کلیم

مسلماں ہے توحید میں گرم جوش
مگر دل ابھی تک ہے زنار پوش

تمدن، تصوف، شریعت، کلام
بتان عجم کے پجاری تمام

حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی

لبھاتا ہے دل کو کلام خطیب
مگر لذتِ شوق سے بے نصیب

بیاں اس کا منطق سے سلجھا ہوا
لغت کے بکھیڑوں میں الجھا ہوا

وہ صوفی کہ تھا خدمتِ حق میں مرد
محبت میں یکتا، حمیت میں فرد

عجم کے خیالات میں کھو گیا
یہ سالک مقامات میں کھو گیا

بجھی عشق کی آگ ، اندھیر ہے
مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے

No comments:

Post a Comment