پاکستانی میڈیا میں ان خبروں کے بعد کہ حکومت ججوں کی بحالی کا نوٹیفیکیشن واپس لینے پر غور کر رہی ہے، چیف جسٹس نے دیگر ججوں کے ساتھ سپریم کورٹ میں طویل مشاورت کے بعداس معاملے کی فوری سماعت اعلان کرتے ہوئے اٹارٹی جنرل کو جمعہ کی صبح عدالت کےسامنے پیش ہونے کا حکم جاری کیا ہے۔
سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اس حوالے سے ایک پریس ریلیز بھی شائع کی گئی ہے جس کا آغاز ہی کچھ ٹیلی وژن چینلز پر ججوں کی بحالی کے ایگزیکٹیو آرڈر یا نوٹیفیکیشن کو واپس لیے جانے کی اطلاعات سے ہوتا ہے۔ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ عدالتِ عظمیٰ اس معاملے کو اکتیس جولائی سنہ دو ہزار نو کے فیصلے میں ہمیشہ کے لیے طے کر چکی ہے اور یہ کہ جنرل مشرف کے ہاتھوں ججز کی معزولی ایک غیر آئینی اور غیر قانون اقدام تھا۔پریس ریلیز کے مطابق: ’ان حقائق کو نگاہ میں رکھتے ہوئے پاکستان کے چیف جسٹس نے رجسٹرار کے ایک نوٹ کو سول متفرق درخواست کا درجہ دیتے ہوئے جمعہ کی صبح سترہ رکنی بنچ کے سامنے اس کی باقاعدہ سماعت کا حکم جاری کیا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کے اٹارنی جنرل کو عدالت میں پیش ہونے کا نوٹس بھی جاری کر دیا گیا ہے۔‘
چیف جسٹس سمیت دیگر ججز نے اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں طویل مشاورت کی۔ اس صورتِ حال کے تناظر میں حکومت کی طرف سے بھی ان خبروں کی تردید کی گئی ہے کہ ججوں کی بحالی کا سولہ مارچ کا نوٹیفیکشن/ ایگزیکٹیو آرڈر واپس لیا جا رہا ہے۔
وزیرِ اطلاعات قمرالزمان کائرہ نے بات کرتے ہوئے کہا: ’ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ججز کی بحالی کے آرڈر کو واپس لیا جائے۔ہم عدالتوں میں جا کر اپنے خلاف دائر مقدمات کا سامنا کرتے ہیں اور عدالتوں پر شب خون مارنا ہماری جماعت کی پالیسی نہیں ہے۔ ہم نے عدلیہ کی آزادی کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔‘
سپریم کورٹ کی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ججوں کی بحالی کے نوٹیفیکیشن کے سلسلے میں کچھ اخبارات میں پہلے ہی خبریں شائع کر چکے ہیں جبکہ چند ماہ پہلے پارلیمان میں اعلیٰ ترین آئینی عہدوں پر فائز شخصیات میں سے ایک نے اسی طرح کا بیان بھی دیا تھا۔
وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے متعدد بار پارلیمان کے سیشن کے دوران یہ بیان دیا ہے کہ چیف جسٹس سمیت اعلیٰ عدلیہ کے وہ جج صاحبان جنھیں تین نومبر دو ہزار سات کو معزول کر دیا گیا تھا، کسی لانگ مارچ کے نتیجے میں بحال نہیں ہوئے بلکہ انھیں ’میں نے ایک ایگزیکیٹو آرڈر کے ذریعے بحال کیا ہے جس کی توثیق ایوان سے کرانا باقی ہے‘۔
وزیرِ اطلاعات نے بتایا کہ عدالت الیکٹرونک میڈیا کا بھی نوٹس لے جو بغیر تحقیق کیے ایسی خبریں نشر کر دیتا ہے۔
No comments:
Post a Comment