امریکی میگزین ’ ٹائم‘ کے سرورق پر شائع ہونے والی متنازع افغان لڑکی کی پلاسٹک سرجری کے ذریعے نئی ناک لگا دی گئ ہے۔
عائشہ نامی اس لڑکی نے جریدے کو بتایا تھا کہ شوہر کے مظالم سے بچنے کے لیے اُس کے گھر سے فرار ہونے پر سزا کے طور پر اُس کے شوہر نے اُس کی ناک اور کان کاٹ دیے تھے اوراس کارروائی میں اُسے طالبان کمانڈر کی حمایت حاصل تھی۔میگزین ’ ٹائم‘ پر اس کہانی کے شائع ہونے کے بعد امریکہ میں یہ بحث چھڑ گئی کہ اگر امریکی قیادت میں نیٹو افواج افغانستان سے واپس آگئی تو وہاں عوام کا کیا حشر ہوسکتا ہے۔
عائشہ کی سرجری کیلفورنیا میں کی گئی۔
’کراس مین برن نامی فاؤنڈیشن‘ عورتوں کے خلاف تشدد کو اجاگر کرنے کے لیے نہ صرف تحریک چلا رہی ہے بلکہ بلامعاوضہ پلاسٹک سرجری کا اہتمام بھی کرتی ہے۔
سرجری فاؤنڈیشن کے سرجن پیٹر کراس مین نے کی۔
جوابا ً عائشہ نے سب کا شکریہ ادا کیا۔
اٹھا رہ سالہ عائشہ کو بچپن میں ’ونی ‘کی رسم کے تحت ایک افغان جنگجو سے بیاہ دیا گیا تھا۔ ونی کی رسم میں عزیز رشتے دار قتل کا بدلہ چکانے کے لیے اپنی لڑکیوں کو مقتول کے خاندان میں بیاہ دیتے ہیں۔ عائشہ کا کہنا تھا کہ جنگجو کی گھر میں اُن کے ساتھ انتہای بد سلوکی کی گئی اور مظالم ڈھائے گئے جس سے بچنے کے لیے وہ گھر سے بھاگ نکلی۔مگر اُسے پکڑ لیا گیا اور شوہر نے بھاگنے کی سزا دینے کے لیے اُس کے ناک اور کان کاٹ دئے۔
مغربی دنیا میں عائشہ کے واقعے کو نیٹو افواج کے مستقبل میں افغانستان کے معاملات میں ملوث رہنے کے جواز کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔
امریکی میگزین ’ ٹائم‘ نے اس واقعے کی رپورٹنگ میں جو لب و لہجہ اور زبان استعمال کی، کچھ نا قدین نے اس پر نکتہ چینی کی اور کہا ہے کہ ’ جنسی سیاست ‘ کوامریکی فوج کے افغانستان میں رکے رہنے کے جواز کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
No comments:
Post a Comment