Monday, October 25, 2010

تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ با با فرید گنج شکر کی درگاہ پر ہی حملہ نہیں ہوا صدیوں قبل خود اُن کی زندگی کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاریخ کی کتب میں اس حملہ آور کا حلیہ بھی بیان کیا گیاہے جس نے کوئی آٹھ سو برس پہلے حضرت بابا فریدالدین مسعودگنج شکر کی حیات میں بھی ان پر ایک قاتلانہ کیا تھا۔


تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ با با فرید گنج شکر کی درگاہ پر ہی حملہ نہیں ہوا صدیوں قبل خود اُن کی زندگی کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاریخ کی کتب میں اس حملہ آور کا حلیہ بھی بیان کیا گیاہے جس نے کوئی آٹھ سو برس پہلے حضرت بابا فریدالدین مسعودگنج شکر کی حیات میں بھی ان پر ایک قاتلانہ کیا تھا۔
ماضی کا وہ حملہ آورچمڑے کا لباس اور کان میں بالی پہن کر آیا تھا۔بابا فرید سجدے میں تھے جب ملزم نے اس نے حملہ کا ارادہ کیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ حملہ کرتا ، با با فرید نے کہا کہ ’میں نے اسے معاف کردیا ہے۔ا
روایت ہے کہ اتنی بات پر وہ لرزہ براندام ہوا اور حملہ کیے بنا ہی بھاگ نکلا۔
تاریخ میں درج ہے کہ اس حملہ آور کو ایک ایسے شخص نے بھیجا تھا جو خود کو مذہب کا ٹھیکے دار سمجھتا تھا اور لوگوں کو کہتا تھا کہ با با فرید گنج شکر کوئی خلاف شریعت کام کرتے ہیں۔
ان پر حملے کرنے اور کروانےوالے کا آج تاریخ میں نام و نشان نہیں ہے مگر با با فرید گنج شکر کے نام کا ڈنکا پورے ہندوپاکستان میں بج رہا ہے۔
البتہ آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو مذہبی اور مسلکی اختلاف پر دوسروں کی جان لینے کا کام نیکی سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔
با با فرید حصول علم کے لیے ملتان، قندھار، بدخشان، بخارا اور بغداد بھی گئے۔
وہ عالم دین ہونے کے علاوہ عظیم صوفی اور مبلغ بھی تھے لیکن انہوں نے خواص کی زبانوں عربی فارسی اردو کی بجائے عام لوگوں سے ان کی زبان میں بات کرنے کو ترجیح دی اور بعض مؤرخین انہیں پنجابی کا پہلا شاعر بھی قرار دیتے ہیں۔انہوں نے عربی، فارسی اور ہندی بھی شاعری کی ہے۔
ان سے منسوب اکثر اشعار قرآن پاک کی آیات کی تفسیر اور احادیث کے تراجم پر مبنی ہیں اور سکھوں کی مذہبی کتاب گروگرنتھ صاحب میں بھی ایسے اشلوک ملتے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بابا فرید الدین گنج شکر کا کلام ہے اور با با گرونانک نے اپنے کلام میں ان کی شاعری استعمال کی تھی۔
 
بابا فرید کی درگاہ پر سکون کی تلاش میں آنے والوں کے لیے زندگی بھر کا دکھ
با با فریدالدین گنج شکر نے رنگ نسل اور مذہب سے بالاتر ہوکر ہمیشہ کل انسانیت کی بات کی۔
ایک بار انہیں کسی نے قینچی کا تحفہ دیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے قینچی کا نہیں سوئی کا تحفہ دو۔ قینچی الگ کردیتی ہے اور سوئی قیمت دیکھتی ہے نہ رنگ بس یہ آپس میں ملاتی ہے۔
روایت ہے کہ کابل پر جب چنگیز خان نے حملہ کیا تو با با فرید کےدادا ہجرت کرکے قصور میں قیام پذیر ہوئے تھے۔
خود با با فرید نے بادشاہوں کی قربت والی جگہ سے بے زار ہوکر پہلے دلی اور بعد میں ہانسی چھوڑی اوردریائے ستلج کے کنارے اس وقت کے اجاڑ علاقے اجودھن میں ڈیرہ لگایا جو آج پاکپتن شریف کے نام سے مشہور ہے۔
بابا فرید الدین گنج شکر کا مزار بظاہر ان حملوں کے سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کے تحت ملک بھر میں مزارات کو دھماکوں کانشانہ بنایا جارہا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ جس طرح مسلک سے اختلاف کرنے والوں کو علی ہجویری کے مزار کو داتا کا دربار کہنے پر اعتراض ہے اسی طرح حضرت بابا فرید گنج شکر کے بہشتی دروازے پر بھی وہ معترض ہیں۔
یہ جنوبی دروازہ ان کے عرس پر کھولا جاتا ہے اورہزاروں کی تعداد میں لوگ اس دروازے سے گذرنا چاہتے ہیں کیونکہ روایت ہے کہ حضرت نظام الدین اولیاء نے وجد کے عالم میں تالی بجا کرکہا تھا کہ جو اس دروازے سے گذرے گا وہ امن پائے گا۔
حملہ آوروں نے امن کے خواہشمندوں کو غم و غصے میں مبتلا کیا ہے لیکن خود با با فرید گنج شکر کہتے ہیں کہ:
فریدا برے دا بھلا کر غصہ نہ من ہنڈاء
دیہی روگ نہ لگیے، پلے سب کچھ پاء
(فرید تو برے سے اچھا سلوک کر تاکہ غصہ کہیں تیرے دل پر قابض نہ ہوجائے، اگر تم اپنے آپ کو روگ نہیں لگانا چاہتے تو غصہ والی تمام چیزوں کو سمیٹ لو)

No comments:

Post a Comment