Monday, October 25, 2010

اب صوفی دنیا کے سب سے خوبصورت ترین درویش شاعر فرید کے مزار پر پاک پتن میں دہشت گردانہ حملہ ہوا ہے۔

اور اب صوفی دنیا کے سب سے خوبصورت ترین درویش شاعر فرید کے مزار پر پاک پتن میں دہشت گردانہ حملہ ہوا ہے۔
فرید تو کئی صدیاں پہلے دہشت گردی کی انڈر ورلڈ کے لیے کہہ گیا تھا۔ 'دنیا گجھی بھاہ' کہ دنیا اک چھپی ہوئی آگ ہے۔ وہ آگ جو اب پاک پتن، پورے پاکستان اور پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہے۔
اس دن میں کہہ رہا تھا کہ پتہ ہے اس کا بیج کہاں بویا گيا تھا! جھنگ میں۔ ہیر کے جھنگ میں اور پھر دیکھتے دیکھتے یہ آگ پوری دنیا میں پھیل گئی۔ پشتو شاعر رحمان بابا، علی ہجویری داتا گنج بخش کے لاہور دربار میں، کراچي میں عبد اللہ شاہ غازی اور اب بابا فرید۔
حجاموں لختئیوں سے ٹپوں گيتوں سے
کبھی بدھ سے کبھی رحمان بابا کی غزل سے یہ الجھتے ہیں
(حسن مجتبی)

فلسفۂ تنگ نظری وانتہا پسندی یہ ہے کہ عوام الناس میں مقبول عقائد و خیالات پر ناکہ و ڈاکہ ڈالا جائے۔ یہ بیچارے دنیا اور دکھوں کے ستائے مرد و زن، یہ دیسی پردیسی عقیدت مند جو ان درباروں پر حاضری دیتے ہیں، پھول، شمعیں اور آنکھوں میں آنسوں لاتے ہیں، آسوں امیدوں سے اپنی جھولیاں بھر جاتے ہیں۔ یہ جیب کترے، یہ حالی موالی، یہ عاشق، یہ حسین و محبوب لوگ۔ یہ امیر و غریب، یہ ماتم گسار و مجرے باز، یہ پروانے، دیوانےاور مستانے جو پتنگوں کی طرح کھنچے چلے آتے ہیں۔ ان کی دلوں میں نہ کوئي انتہا پسند گھر کر سکتا ہے نہ ہی کوئی ان کے دل میں بسی بستیوں کے نقشوں کو بموں سے اڑا سکتا ہے اور نہ ہی شیخ فرید کے بولوں کو۔ آج تک انھیں مٹان کے لیے نہ تو کوئی گولی ایجاد ہوئی ہے اور نہ بم۔
کنھ مصلا، صوف گل، دل کاتی گڑ دات
باہر دسے چاننا دل اندھیاری رات
فرید
( کاندھے پر مصلا رکھے، گلے میں کالی کفنی پہنے، دل میں ذبح کرنے والی چھری اور منہ میں مٹھاس،
باہر سے تو روشنی لگتا ہے پر دل تاریک رات ہے)

فرید کی ایسی شاعری جو انتہا پسندوں اور ان کے فسلفے کو لڑتی ہے۔

No comments:

Post a Comment