کیا مغربی ممالک میں مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے؟
نیو یارک میں اسلامک سینٹر کے قیام کا منصوبہ جن وجوہات کی بنا پر متنازعہ قرار دیا جا رہا ہے ان میں سے ایک یہ خوف بھی ہے کہ شاید مسلمان امریکہ میں اسلامی قوانین کے نفاذ کی کوشش کر رہے ہیں اور اہم مقامات پر اپنی عبادت گاہوں کی تعمیر سے وہ اس مشن میں کامیاب ہو جائیں گے۔
جارج ٹاون یونیورسٹی کے پروفیسر جوناتھن براؤن کا کہنا ہے کہ یہ شبہات بے بنیاد ہیں کیونکہ امریکہ اور یورپ میں بسنے والے مسلمان وہاںٕ ایسی کوئی کوشش کرتے دکھائی نہیں دے رہے۔
دوسری جانب مسلم اکثریتی ممالک میں یہ سوچ بھی عام نظر آتی ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک میں مسلمانوں کی مذہبی آزادیوں کو سلب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جس کی مثالیں ہیں فرانس اور بلیجئم میں برقعے پرپابندی، سوئٹزر لینڈ میں میناروں کی تعمیر پر پابندی اور ہالینڈ کی پارلیمنٹ سے اٹھنے والی اسلام اور امیگریشن مخالف آوازیں۔
جرمنی کے شہرنیورمنبرگ میں قائم ایرلنگن یونیورسٹی میں اسلام اور مغربی آئین کے ایک ماہر، پروفیسر ماتھیاس روہ کہتے ہیں کہ ان اقدامات کا اسلام اور مغرب کے درمیان تعلقات پریقیناً منفی اثر ہو رہا ہے، لیکن یہ اقدامات اکثریت کی نہیں بلکہ ایک ایسی قدامت پسند اقلیت کی سوچ کی ترجمانی کرتے ہیں جو یورپ میں اسلام کے کردار کے بارے میں بعض حلقوں کے شکوک و شبہات کو سیاسی مفاد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
تاہم پروفیسر روہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان ممالک کے مسلمانوں کے پاس اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کا کوئی راستہ نہیں رہا۔ ان کے لیے عدلیہ کا دروازہ کھلا ہے جس کا مقصد ہی اقلیت کے حقوق کی حفاظت ہے کیونکہ اکثریت خود اپنے حقوق کی حفاظت کر سکتی ہے۔
یونیورسٹی آف ٹورانٹو میں قانون کے پروفیسرڈاکٹر محمد فضل کے مطابق یورپ اور امریکہ میں آئین کی بنیاد مذہبی آزادی پر ہےاور نجی زندگی میں مسلمانوں کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنی زندگی اسلامی عقائد کے مطابق گزاریں، لیکن وہ عقیدے کی بنیاد پر ایسا کوئی کام نہیں کر سکتے جو آئین سے متصادم ہو۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ اسلامی قوانین دراصل کیا ہیں اور مسلم اقلیتی ممالک میں ان کا دائرہ کار کیا ہے؟ اس کی وضا حت کے لیے ضروری ہے کہ مغرب سے مسلمانوں کی ایک متحد آواز سامنے آئے جو سب کے لیے ان سوالوں کے جواب دے سکے۔
مغربی ممالک میں اسلام اور آئین کے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلمان مغرب میں سماجی دھارے کا حصہ یقینا ہیں ۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ مسلم دنیا ور مغربی ممالک میں سیاسی اور معاشی مسائل کی طرف عوام اور حکمرانوں کی توجہ مبذول کرانے کے لیے مذہب کی زبان کا سہارا نہ لیا جائے اور نہ ہی وہ اور ہم کی فضا قائم کی جائے ، کیونکہ ایسی سوچ عوام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے بجائے ان میں انتشار پیدا کرتی ہے جو موجودہ مسائل کے حل کے بجائے بہت سے نئے مسائل کو جنم دیتی ہے۔
No comments:
Post a Comment