Monday, October 25, 2010

انٹرنیٹ پر خفیہ معلومات شائع کرنے والی ویب سائیٹ وکی لیکس نے کلِک عراق میں امریکی جنگ کے بارے میں چار لاکھ خفیہ دستاویزات جاری

عراق میں تشدد کو نظر انداز کیا گیا: وکی لیکس

وکی لیکس
دستاویز سے یپ پتہ چلتا ہے کہ امریکی فوج عراقی حکام کے تشدد سے باخبر تھی
انٹرنیٹ پر خفیہ معلومات شائع کرنے والی ویب سائیٹ وکی لیکس نے عراق میں امریکی جنگ کے بارے میں چار لاکھ خفیہ دستاویزات جاری کردی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی فوج نے عراقی حکام کے ہاتھوں عراقی شہریوں پر تشدد کو جانتے بوجھتے نظر انداز کیا۔
کلِک وکی لیکس کیا ہے؟

دستاویزات یہ بھی بتاتی ہیں کہ 2003ء میں عراق پر امریکی فوج کے حملے کے بعد امریکی فوج کی حفاظتی چوکیوں پر سینکڑوں شہریوں کو قتل کیا گیا اور یہ کہ امریکہ کے پاس عراقی شہریوں کی ہلاکتوں کا ریکارڈ موجود تھا جس سے وہ انکار کرتا رہا ہے۔
خفیہ دستاویزات کے مطابق عراق میں جنگ کے دوران ایک لاکھ نو ہزار افراد ہلاک ہوئے جن میں چھیاسٹھ ہزار اکیاسی عام شہری تھے۔
امریکہ نے ان دستاویزات کو منظر عام پر لانے کے عمل پر کڑی تنقید کی ہے جو کہ اسکی تاریخ میں خفیہ دستاویزات کے انکشاف کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔
افراد اور اداروں کی جانب سے ایسی معلومات کو افشاء کرنے کی واضح الفاظ میں مذمت کرتی ہیں جو امریکہ اور اسکے ساتھی ملکوں کے اہلکاروں اور شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتی ہوں۔
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے واشنگٹن میں صحافیوں سے بات کرتے کہا کہ وہ ’افراد اور اداروں کی جانب سے ایسی معلومات کو افشاء کرنے کی واضح الفاظ میں مذمت کرتی ہیں جو امریکہ اور اسکے ساتھی ملکوں کے اہلکاروں اور شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتی ہوں۔‘
وکی لیکس کی جانب سے منکشف کی گئی ان معلومات میں بتایا گیا ہے کہ جنگ کے دوران کس طرح عراقی حکام اپنے ہی شہریوں پر تشدد کرتے رہے ہیں جن میں وہ زیر حراست شہریوں کرنٹ لگانے اور ان کے جسموں میں ڈرل مشین سے سوراخ کرنے سے لے کر انہیں جان سے بھی مارتے رہے ہیں۔
بی بی سی کے نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی فوج، عراقی حکام کے ہاتھوں شہریوں پر تشدد کی ان کارروائیوں سے باخبر ہے لیکن امریکی فوج کے اہلکاروں نے اپنے حکام کو بھیجی گئی رپورٹوں پر یہ لکھا ہے کہ اس بارے میں مزید کوئی تفتیش نہیں کی گئی۔
وکی لیکس
رپورٹ
اس کارروائی میں حصہ لینے والے ہیلی کاپٹر کا عملہ دو صحافیوں کے قتل میں بھی ملوث تھا۔
امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان جیوف موریل نے کہا ہے کہ جنگ کے جس عرصے کے متعلق یہ دستاویزات ہیں، اس پر ذرائع ابلاغ، کتابوں اور فلموں میں تفصیل سے کوریج موجود ہے اور اب ان فیلڈ رپورٹوں کے منکشف ہونے سے عراق کے ماضی کے بارے میں کوئی نئی چیز سامنے نہیں آئے گی۔
تاہم ترجمان نے کہا کہ ’اس سے خفیہ معلومات کی پردہ کشائی ضرور ہوئی ہے جس کے نتیجے میں مستقبل میں ہماری فوجیں مزید حملوں کے خطرے سے دوچار ہوسکتی ہیں۔‘
وکی لیکس کے بانی جولین آسانج نے عراق سے خفیہ معلومات کو منظر عام پر لانے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ سچ کو منظر عام پر لایا گیا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ عراق جنگ کے دوران اور بعد میں سچ پر جو حملہ کیا گیا تھا خفیہ دستاویزات اس کو درست کریں گی۔
جرمن جریدے ڈیر سپیگل کے مطابق عراق جنگ سے متعلق منظرعام پر لائی گئی دستاویزات میں ایران کی عراق میں مداخلت کے نئے شواہد ملے ہیں۔
جریدے کے مطابق عراق میں مزاحمت کار جو ہتھیار استعمال کرتے تھے وہ ایران کے پاسدارنِ انقلاب نے مہیا کیے تھے۔
دستاویزات کے مطابق ایران عراق میں پراکسی وار کو ہوا دے رہا تھا اور تہران عراقی ملیشیا کو تربیت دے رہا تھا کہ وہ امریکی فوجیوں کو اغوا اور ہلاک کریں۔
ڈیر سپیگل جس کو وکی لیکس نے چند دستاویزات مہیا کی تھیں کا کہنا ہے کہ دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عراق جنگ کے دوران امریکی فوجی سڑک کنارہ بم پھٹنے کے واقعات اور دھماکوں کی وجہ سے مسقتل طور پر نفسیاتی خوف کا شکار تھے۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے ماہ جولائی میں بھی وکی لیکس نے افغانستان میں جاری جنگ کے متعلق 70 ہزار خفیہ دستاویزات افشاء کی تھیں جن پر امریکی حکام نے اسی طرح کے ردعمل کا اظہار کیا تھا۔

No comments:

Post a Comment