پاکستانی حکومت نےافغانستان کےساتھ طورخم بارڈر کودس دن تک بند رکھنے کےبعد نیٹو افواج کا سازوسامان لے جانے والے ٹرکوں اورٹینکرز کے لیےکھول دیا ۔ پاکستان نے یہ بارڈر اُس وقت احتجاجاً بند کر دیا تھا جب ایک نیٹو ہیلی کاپٹر افغان جنگجوؤں کا پیچھا کرتے ہوئے پاکستانی سرحد میں داخل ہوا اورفائرنگ میں غلط فہمی کی بنیاد پرپاکستانی نیم فوجی دستے کے تین اہل کار ہلاک ہوئے۔
مبصرین کہتے ہیں کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان یہ تناوٴ محض عارضی تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کے پاس فوج کو رسد پہنچانے کے پاکستان کے علاوہ دیگر راستے بھی ہیں اور پاکستان اپنی معیشت اور سیلاب سے ہونے والی تباہی کی وجہ سے امریکی امداد پر انحصار کر رہا ہے۔
مبصرین کہتے ہیں کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان یہ تناوٴ محض عارضی تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کے پاس فوج کو رسد پہنچانے کے پاکستان کے علاوہ دیگر راستے بھی ہیں اور پاکستان اپنی معیشت اور سیلاب سے ہونے والی تباہی کی وجہ سے امریکی امداد پر انحصار کر رہا ہے۔
مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے سکالر اور جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مارون وائن بام کہتے ہیں کہ پاکستان کا رویہ سخت تھا کیونکہ موجودہ حکومت اپنی ساکھ بہتر کرنا چاہتی ہے کیونکہ اُسے فوج کی طرف سے اور عدالتوں کی طرف سے سخت دباوٴ کا سامنا ہے۔ اُن کے مطابق عوام کی رائے صدر اور اب وزیرِ اعظم کے بھی سخت خلاف ہے، اِس لیے وہ امریکہ کے خلاف کھڑے ہوکر اپنی ساکھ بہتر کرنا چاہتے تھے۔
اِس واقعے نے پاکستان اور امریکہ کے اتحاد میں تناو ٴ پر سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ مگر امریکی محکمہِ دفاع نے اِس تناوٴ اور اِس کے ممکنہ اثرات کو اتنی اہمیت نہیں دی۔ محکمہء دفاع کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ اِس سے افغانستان میں فوجوں کو تیل پہنچانے کی ہماری صلاحیت کسی بھی طرح متاثر نہیں ہوئی اور ہمارے خیال میں مستقبل میں بھی اِس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔
ایک اندازے کے مطابق نیٹو افواج کا 80 فیصد غیر جنگی سامان پاکستان کے راستے افغانستان جاتا ہے۔ یہ سامان پہلے کراچی کی بندرگاہ پر پہنچایا جاتا ہے اور پھر اِس میں سے زیادہ تر ٹرکوں کے ذریعے طور خم اور چمن کے ذریعے افغانستان منتقل کیا جاتا ہے۔
ہیرٹیج فاونڈیشن کی لیزا کرٹس کہتی ہیں کہ پاکستان شاید امریکی حکومت کو یہ اشارہ دے رہا ہے کہ افغانستان کی جنگ کے لیے اُس کی حمایت کو غیر سنجیدہ نہ لیا جائے۔ وہ کہتی ہیں کہ پاکستان کو پھر بھی ایک اتحادی کے طور پر کام کرنا چاہیے کیونکہ دوسری صورت میں اوباما انتظامیہ اور عالمی برادری کو زیادہ سنجیدہ ہونا پڑے گا اور صرف امداد دینے کے بجائے انہیں یہ سوچنا ہو گا کہ اگر پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد فراہم نہیں کرتا تو اُسے سخت اقدامات کا سامنا کرنا ہوگا۔
گذشتہ ہفتے وائٹ ہاوس نے امریکی کانگریس کو ایک رپورٹ بھیجی ہے جِس میں کہاگیا کہ پاکستانی افواج اپنی سرحد کے اندر چھپےافغان طالبان اور القائدہ سے براہ راست لڑائی میں شامل ہونے سے گریزاں ہے۔ مارون وائن بام کہتے ہیں کہ شاید یہ درست ہے مگر وقت ہی بتائے گا کہ طالبان پاکستان کے لیے نقصان دہ ہیں یا نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اِس قسم کی حمایت پاکستان کے لیے فائدہ مند نہیں ہو گی کیونکہ طالبان کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔
واشنگٹن کے مبصرین کہتے ہیں کہ افغان جنگ کے دونوں اہم اتحادی امریکہ اور پاکستان ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں اور مستقبلِ قریب میں اُن کے تعلقات معمولی واقعات کی بنا پر متاثر نہیں ہوں گے۔
No comments:
Post a Comment