UGALISHARIF(WADISOON)
Friday, October 29, 2010
Tuesday, October 26, 2010
ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق بوشہر میں واقع جوہری بجلی گھر میں ایندھن بھرنے کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔
بشہر کے جوہری ریکٹر میں افزودگی کے عمل کے لیے یہ پہلا مرحلہ ہے جس میں سے دو ہزار گیارہ سے بجلی کی پیداوار شروع ہو جائےگی۔
جنوبی ایران کے علاقے بوشہر میں واقع اس جوہری تنصیب کو روسی ماہرین چلائیں گے۔ روس اسے جوہری ایندھن مہیا کرےگا اور پھر بچا ہوا فضلہ خود ہی لے جائےگا۔
ایران اور روس کے انجینیئروں نے اگست میں ہی اس ری ایکٹر میں ایندھن ڈالنے کا عمل شروع کردیا تھا لیکن بعض تکنیکی خرابیوں کے سبب اس عمل میں تاخیر کر دی گئی تھی۔
منگل کے روز ایرانی ٹی وی نے اعلان کیا کہ ’جوہری پلانٹ میں ایندھن بھرنے کا کام شروع کردیا گیا ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک روس اس پلانٹ کو چلاتا رہے گا اور ایٹمی توانائی کا عالمی ادارہ اس کی نگرانی کرتا رہے گا تب تک اس سے جوہری پھیلاؤ کا کوئی حطرہ نہیں ہے۔
بوشہر پلانٹ میں یورونیم کا جو ایندھن استعمال کیا جائےگا وہ جوہری ہتھیار بنانے کے لیے افزدہ کیے گئے یورنیم سے بہت کم درجہ کا ہے۔ بم بنانے کے لیے یورونیم کو نوے فیصد تک افزدہ کیا جاتا ہے جبکہ بجلی پیدا کرنے کے لیے صرف ساڑھے تین فیصد افزودگی کی ضرورت ہے۔
اس طرح کے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ مغربی ممالک نے روس کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت بوشہر کے بجلی گھر کو ہری جھنڈی دے دی ہے۔
اس معاہدے کے تحت واشگنٹن نے روس کے ذریعے بوشہر کے پلانٹ کو کھولنے پر اتفاق کیا جبکہ روس نے ایران پر نئی پابندیوں کی حمایت کر دی ہے۔
نامہ نگار کے مطابق مغربی ممالک کو سب سے زیادہ خطرہ ایران کے اس جوہری پلانٹ سے ہے جو اس نے خود تیار کیا ہے اور یورونیم افزودہ کیا ہے۔
ایران نے پہلے ہی ایک منصوبے کے تحت بیس فیصد یورونیم افزودہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مغربی ممالک ایران کے جوہری پروگرام کو خطرہ تصور کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایران در اصل جوہری ہتھیاروں کے حصول کے لیے یہ سب کر رہا ہے جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام سویلین مقاصد کے لیے ہے۔
جنوبی ایران کے علاقے بوشہر میں واقع اس جوہری تنصیب کو روسی ماہرین چلائیں گے۔ روس اسے جوہری ایندھن مہیا کرےگا اور پھر بچا ہوا فضلہ خود ہی لے جائےگا۔
ایران اور روس کے انجینیئروں نے اگست میں ہی اس ری ایکٹر میں ایندھن ڈالنے کا عمل شروع کردیا تھا لیکن بعض تکنیکی خرابیوں کے سبب اس عمل میں تاخیر کر دی گئی تھی۔
منگل کے روز ایرانی ٹی وی نے اعلان کیا کہ ’جوہری پلانٹ میں ایندھن بھرنے کا کام شروع کردیا گیا ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک روس اس پلانٹ کو چلاتا رہے گا اور ایٹمی توانائی کا عالمی ادارہ اس کی نگرانی کرتا رہے گا تب تک اس سے جوہری پھیلاؤ کا کوئی حطرہ نہیں ہے۔
بوشہر پلانٹ میں یورونیم کا جو ایندھن استعمال کیا جائےگا وہ جوہری ہتھیار بنانے کے لیے افزدہ کیے گئے یورنیم سے بہت کم درجہ کا ہے۔ بم بنانے کے لیے یورونیم کو نوے فیصد تک افزدہ کیا جاتا ہے جبکہ بجلی پیدا کرنے کے لیے صرف ساڑھے تین فیصد افزودگی کی ضرورت ہے۔
اس طرح کے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ مغربی ممالک نے روس کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت بوشہر کے بجلی گھر کو ہری جھنڈی دے دی ہے۔
اس معاہدے کے تحت واشگنٹن نے روس کے ذریعے بوشہر کے پلانٹ کو کھولنے پر اتفاق کیا جبکہ روس نے ایران پر نئی پابندیوں کی حمایت کر دی ہے۔
نامہ نگار کے مطابق مغربی ممالک کو سب سے زیادہ خطرہ ایران کے اس جوہری پلانٹ سے ہے جو اس نے خود تیار کیا ہے اور یورونیم افزودہ کیا ہے۔
ایران نے پہلے ہی ایک منصوبے کے تحت بیس فیصد یورونیم افزودہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مغربی ممالک ایران کے جوہری پروگرام کو خطرہ تصور کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایران در اصل جوہری ہتھیاروں کے حصول کے لیے یہ سب کر رہا ہے جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام سویلین مقاصد کے لیے ہے۔
ایران نے منگل کوملک میں جوہری توانائی سے چلنے والے پہلے بجلی گھر میں جوہری ایندھن منتقل کرنے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔
سرکاری ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی ہے کہ ایک ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے جوہری ری ایکٹر بوشہر سے توانائی کی پیداوار آئندہ سال کے اوائل میں شروع ہو جائے گی۔
ایران نے اگست میں جوہری ایندھن ری ایکٹر کی عمارت میں پہنچانا شروع کر دیا تھا لیکن بعد ازاں’تکنیکی وجوہات‘ کی بنیاد پر منصوبے میں تاخیر کر دی گئی۔
تہران بوشہر ری ایکٹر کے ذریعے مغربی ممالک پریہ باور کرانا چاہتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے۔
امریکہ اور یورپی یونین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایران کا جوہری ٹیکنالوجی حاصل کرنے کا مقصد جوہری ہتھیاروں کی تیاری ہے، اور وہ اس سلسلے میں تہران پر متعدد مرتبہ اقتصادی پابندیاں بھی عائد کر چکے ہیں۔
ماہرین کے مطابق بوشہر ری ایکٹر کے ذریعے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے میں کوئی مدد ملنا مشکل ہے کیوں کہ روس اس تنصیب کے لیے ایندھن کی فراہمی اور اسے ٹھکانے لگانے میں معاونت کررہا ہے ۔ واضح رہے کہ یہ جوہری ری ایکٹر روسی ساختہ ہے۔
اقوام متحدہ نے جون میں ایران کے خلاف اُس وقت پابندیوں کے چوتھے مرحلے کا اعلان کیا تھا جب تہران نے یورینیم کی افزودگی بند کرنے سے انکار کر دیا۔
Monday, October 25, 2010
Subscribe to:
Posts (Atom)