Tuesday, September 28, 2010

پاکستان کی جمہوریت کس قدر مستحکم؟

 
دہشت گردی اوراپنی تاریخ کے بدترین  سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں سے دوچار پاکستانی جمہوریت کبھی  جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کے چیلنج اور کبھی سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھ  رہی ہے۔
 جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سے ہٹنے اور ملک کی دو بڑی پارٹیوں پی پی پی اور پی ایم ایل این کی طرف سے ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر جمہوریت کے استحکام کے لیے متحد ہونے کے وعدوں سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ اب پاکستان میں جمہوریت مستحکم ہو گی۔  پروفیسر وسیم احمد کا تعلق لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز سے ہے۔   وہ کہتے ہیں پاکستانی جمہوریت کی شکل ایک پوسٹ ملٹری سٹیٹ کی سی ہے،  جس کے جمہوری ادارے کمزور ہیں۔  کیونکہ ملٹری لیڈرشپ سیاسی اداروں کو غیر مستحکم کرتی ہے۔  سیاستدانوں کو اپنے ساتھ ملاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں سیاسی جماعتیں کمزور ہو جاتی ہیں۔ جب حکومت انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آتی ہے تو اسے لگتا ہے کہ وہ مفلوج ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں بے حد کمزور ہو چکی ہوتی ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جمہوری اور غیر جمہوری اداروں کے اختیارات پر بحث چلتی رہتی ہے۔  شیلا فرومین 2006 ءسے2010 ء تک پاکستان میں نیشنل ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ کی کنٹری ڈائریکٹر رہ چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں اختیار حکومت کے پاس ہے یا فوج کے پاس یہ ایک سوال ہے۔  ان کے مطابق یہ واضح ہے کہ  منتخب حکومت فوج کو اپنے اختیار میں نہیں لا سکی۔  دفاع اور خارجہ پالیسی کے ادارے فوج ہی کے اختیار میں ہیں۔ جب بھی حکومت نے  ان اداروں کو اپنے اختیار میں لانے کی کوشش کی تو اسے ناکامی ہوئی۔  
وہ کہتی ہیں کہ تقریباً دو سال پہلے حکومت نے آئٍی ایس آئی کو سول حکومت کے زیرنگران لانے کی کوشش کی تو ملٹری نے اس کی اجازت نہ دی۔ پاکستان کا ڈیفنس بجٹ پر،  جو اس کے کل بجٹ کا بہت بڑا حصہ ہے ،  پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہو سکتی۔
شاہد جاوید برکی 90 ءکی دہائی میں نگراں وزیرِ اعظم معین قریشی کی  حکومت میں پاکستان کے وزیرِ خزانہ تھے ۔ وہ  ورلڈبینک سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اداروں کو مضبوط بنانے  کے لیے سیاستدانوں کی قابلیت بھی بڑھانی ہو گی تاکہ وہ تعلیم، صحت اور معیشت کے شعبوں میں عوام کی توقعات پر پورے اترسکیں۔
 وہ کہتے ہیں کہ اگر پاکستانی سیاستدانوں کا موازنہ امریکی کانگریس کے اراکین کے ساتھ کیا جائے تو ان کے پاس نہ تو سٹاف ہے  اور نہ ہی  کمپیوٹرز۔  جبکہ امریکہ میں ہر کانگریس مین کے پاس بیس افراد کا سٹاف ہوتا ہے۔  دفتر میں کمپیوٹرز ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اراکینِ پارلیمنٹ کی دفتری سہولتوں میں اضافی کیا جائے اور پاکستان میں قانون سازوں کی اہلیت پر کام کیا جائے۔
شاہد جاوید برکی نے ماضی کی مثالیں دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ فوجی جرنیلوں نے ہمیشہ کمزور معیشت کو دلیل بنا کر اقتدار پر قبضہ کیا ہے۔  اس لیے سیاسی حکمرانوں کو چاہیے کہ ٹیکس وصولی کے نظام کو اتنا مضبوط بنائیں کہ انہیں معیشت کو چلانے کے لیے بیرونی سہارے نہ ڈھونڈنے پڑیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے لیے سیاسی جماعتوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ  وہ عوام کی توقعات پوری کر سکیں اور غیر جمہوری عناصر انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کر پائیں۔

No comments:

Post a Comment