Sunday, September 26, 2010

افغان مہاجرین کی دوبارہ رجسٹریشن

افغان مہاجرین کی دوبارہ رجسٹریشن

پاکستان میں قریباً سترہ لاکھ رجسٹرڈ افغان پناہ گزین موجود ہیں
پاکستان میں مقیم رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کی دوبارہ رجسٹریشن کا کام شروع کر دیا گیا ہے اور اب پہلی مرتبہ پناہ گزینوں کے اٹھارہ سال سے کم بچوں کو پیدائش کا سرٹیفیکٹ بھی جاری کیا جائے گا۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے حکام نے بتایا ہے کہ یہ رجسٹریشن کارڈ ان پناہ گزینوں کو جاری کیے جا رہے ہیں جو پہلے سے رجسٹرڈ ہیں لیکن ان نئے کارڈ کی مدت دو ہزار بارہ تک ہوگی اور اس دوران افغان پناہ گزین قانونی طور پر پاکستان میں رہ سکیں گے جس کے بعد ان کی وطن واپسی کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔
یو این ایچ سی آر کے پشاور میں موجودہ عہدیدار قیصر آفریدی نے بتایا کہ اب پہلی مرتبہ افغان پناہ گزینوں کے بچوں کو پیدائش کا سرٹیفیکیٹ بھی جاری کیا جائے گا جس پر کام شروع کر دیا گیا ہے اور نئے رجسٹریشن کارڈز کے ہمراہ پناہ گزینوں کے بچوں کو پیدائش کے سرٹیفیکیٹس بھی جاری کیے جائیں گے۔
برتھ سرٹیفیکیٹ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے پناہ گزینوں کے بچوں کو شہریت دے دی گئی ہے بلکہ اس سرٹیفیکیٹ سے ان بچوں کو بنیادی تمام سہولیات دستیاب ہوں گی۔
قیصر آفریدی
انھوں نے کہا کہ یہ سرٹیفیکیٹ بچوں کے بنیادی حقوق میں شامل ہے اور اس میں اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچے ہی شامل ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ اس بارے میں فیصلہ یو این ایچ سی آر ، حکومت پاکستان اور افغانستان کے حکام کے مابین اس سال مارچ میں ہونے والے اجلاس میں کیا گیا تھا جس پر عملدرآمد اب کیا جا رہا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں قیصر آفریدی نے کہا کہ اس سرٹیفیکیٹ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے پناہ گزینوں کے بچوں کو شہریت دے دی گئی ہے بلکہ اس سرٹیفیکیٹ سے ان بچوں کو بنیادی تمام سہولیات دستیاب ہوں گی۔
افغان پناہ گزینوں نے اس اقدام کو بچوں کے مستقبل کے لیے بہتر قرار دیا ہے اور کہا ہے ان کے بچے اب اچھے تعلیمی اداروں میں تعلیم بھی حاصل کر سکیں گے۔
دو ہزار نو کے سروے کے مطابق پاکستان میں کوئی سترہ لاکھ رجسٹرڈ افغان پناہ گزین موجود ہیں جو اب دو ہزار بارہ تک ہاں رہ سکتے ہیں۔
قیصر آفریدی کے مطابق افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اس سال مارچ سے اب تک کوئی نوے ہزار پناہ گزین واپس اپنے وطن چلے گئے ہیں جنھیں تمام سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔

No comments:

Post a Comment