Tuesday, September 28, 2010

عراق: امریکی فوجی نے دوساتھیوں کو ہلاک کردیا

امریکی فوج نے کہا ہے کہ اس نے ایک فوجی کو مبینہ طورپر ایک جھگڑے کے دوران دو امریکی اہل کاروں کو ہلاک کرنے کے سلسلے  میں عراق میں روک لیا ہے۔
منگل کے روزفوج کی جانب سے  جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسپیشلسٹ نیف ٹیلی پلیٹرو کو گذشتہ جمعرات فلوجہ میں دو فوجیوں کو ہلاک کرنے کے  بعد حراست میں لیا گیا۔
کرنل بیری جانسن نے کہا ہے کہ چار فوجیوں میں زبانی توتکار ہوئی  تھی۔ فوجی ترجمان کا کہنا ہے کہ پلیٹرو نے مبینہ طورپر اپنا اسلحہ اٹھا کر دوسرے فوجیوں پر فائرنگ شروع کردی۔ اس واقعہ  میں تیسرا فوجی زخمی  ہوگیا تھا۔

پاکستان کی جمہوریت کس قدر مستحکم؟

 
دہشت گردی اوراپنی تاریخ کے بدترین  سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں سے دوچار پاکستانی جمہوریت کبھی  جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کے چیلنج اور کبھی سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھ  رہی ہے۔
 جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سے ہٹنے اور ملک کی دو بڑی پارٹیوں پی پی پی اور پی ایم ایل این کی طرف سے ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر جمہوریت کے استحکام کے لیے متحد ہونے کے وعدوں سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ اب پاکستان میں جمہوریت مستحکم ہو گی۔  پروفیسر وسیم احمد کا تعلق لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز سے ہے۔   وہ کہتے ہیں پاکستانی جمہوریت کی شکل ایک پوسٹ ملٹری سٹیٹ کی سی ہے،  جس کے جمہوری ادارے کمزور ہیں۔  کیونکہ ملٹری لیڈرشپ سیاسی اداروں کو غیر مستحکم کرتی ہے۔  سیاستدانوں کو اپنے ساتھ ملاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں سیاسی جماعتیں کمزور ہو جاتی ہیں۔ جب حکومت انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آتی ہے تو اسے لگتا ہے کہ وہ مفلوج ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں بے حد کمزور ہو چکی ہوتی ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جمہوری اور غیر جمہوری اداروں کے اختیارات پر بحث چلتی رہتی ہے۔  شیلا فرومین 2006 ءسے2010 ء تک پاکستان میں نیشنل ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ کی کنٹری ڈائریکٹر رہ چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں اختیار حکومت کے پاس ہے یا فوج کے پاس یہ ایک سوال ہے۔  ان کے مطابق یہ واضح ہے کہ  منتخب حکومت فوج کو اپنے اختیار میں نہیں لا سکی۔  دفاع اور خارجہ پالیسی کے ادارے فوج ہی کے اختیار میں ہیں۔ جب بھی حکومت نے  ان اداروں کو اپنے اختیار میں لانے کی کوشش کی تو اسے ناکامی ہوئی۔  
وہ کہتی ہیں کہ تقریباً دو سال پہلے حکومت نے آئٍی ایس آئی کو سول حکومت کے زیرنگران لانے کی کوشش کی تو ملٹری نے اس کی اجازت نہ دی۔ پاکستان کا ڈیفنس بجٹ پر،  جو اس کے کل بجٹ کا بہت بڑا حصہ ہے ،  پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہو سکتی۔
شاہد جاوید برکی 90 ءکی دہائی میں نگراں وزیرِ اعظم معین قریشی کی  حکومت میں پاکستان کے وزیرِ خزانہ تھے ۔ وہ  ورلڈبینک سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اداروں کو مضبوط بنانے  کے لیے سیاستدانوں کی قابلیت بھی بڑھانی ہو گی تاکہ وہ تعلیم، صحت اور معیشت کے شعبوں میں عوام کی توقعات پر پورے اترسکیں۔
 وہ کہتے ہیں کہ اگر پاکستانی سیاستدانوں کا موازنہ امریکی کانگریس کے اراکین کے ساتھ کیا جائے تو ان کے پاس نہ تو سٹاف ہے  اور نہ ہی  کمپیوٹرز۔  جبکہ امریکہ میں ہر کانگریس مین کے پاس بیس افراد کا سٹاف ہوتا ہے۔  دفتر میں کمپیوٹرز ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اراکینِ پارلیمنٹ کی دفتری سہولتوں میں اضافی کیا جائے اور پاکستان میں قانون سازوں کی اہلیت پر کام کیا جائے۔
شاہد جاوید برکی نے ماضی کی مثالیں دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ فوجی جرنیلوں نے ہمیشہ کمزور معیشت کو دلیل بنا کر اقتدار پر قبضہ کیا ہے۔  اس لیے سیاسی حکمرانوں کو چاہیے کہ ٹیکس وصولی کے نظام کو اتنا مضبوط بنائیں کہ انہیں معیشت کو چلانے کے لیے بیرونی سہارے نہ ڈھونڈنے پڑیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے لیے سیاسی جماعتوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ  وہ عوام کی توقعات پوری کر سکیں اور غیر جمہوری عناصر انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کر پائیں۔

بابری مسجد تنازع کے فیصلے کی راہ ہموار ، فیصلہ جمعرات کو متوقع

Babri Mosque
بابری مسجد تنازع
بھارت کی عدالت عظمیٰ نے بابری مسجد ، رام مندر تنازع کے عدالتی فیصلے کی راہ ہموار کردی ہے۔ منگل کو ریاست اترپردیس کی علاقائی عدالت نے کئی برس پرانے اس فیصلے کے حوالے سے دائر درخواست کو نمٹاتے ہوئے ہدایات جاری کیں کہ فیصلے میں مزید تاخیر نہ کرتے ہوئے فی الفور اس مقدمے کا فیصلہ سنایا جائے۔
بھارتی شہر ایودھیہ میں 1992ء میں مشتعل انتہاپسندوں نے تاریخی بابری مسجد کو یہ کہتے ہوئے منہدم کردیا تھا کہ جس جگہ مسجد قائم تھی وہاں ہندووٴں کے دیوتا  رام نے جنم لیا تھا اور یہ مسجد رام مندر کو گراکر تعمیر کی گئی تھی جبکہ مسلمانوں نے اس موقف کو مسترد کرتے ہوئے مسجد کی اراضی کی مملکت مسلمانوں کو دیئے جانے کی غر ض سے عدالت سے رجوع کیا تھا۔
یہ مقدمہ پچھلے اٹھارہ سال سے زیر سماعت ہے ۔ مقدمے کا فیصلہ گزشتہ ہفتے سنایا جانا تھا تاہم اس فیصلے کو رکوانے کے لئے عدالت میں درخواست دی گئی تھی اور موقف پیش کیا گیا تھا کہ فیصلہ امن و امان کی صورتحال کو خراب کرسکتا ہے لہذا اسے عارضی طور پر روک لیا جائے۔ عدالت نے یہ درخواست نمٹاتے ہوئے ہدایت دی ہے کہ مقدمے کا فیصلہ بلاتاخیر سنادیا جائے۔ متعلقہ عدالت آئندہ جمعرات کو اس تاریخی مقدمے کا فیصلہ سنائے گی۔
واضح رہے کہ چھ دسمبر 1992ء کو مسجد کے انہدام کے بعد پورے بھارت میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے تھے جن میں دوہزار افرادہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ تاریخی مسجد کواسی مقام پر دوبارہ بنانے کی اجازت دی جائے۔ دوسری جانب ہندووٴں کا کہنا ہے کہ مسجد رام جنم بھومی پر ناجائز طریقے سے مندر گراکر مسجد تعمیر کی گئی تھی۔
یہ مقدمہ بھارت کی تاریخ کا سب سے اہم اور حساس مقدمہ قرار دیا جارہا ہے ۔ مرکزی حکومت کو خدشہ تھا کہ اگر ایسے حالات میں جبکہ ملک میں تین اکتوبر سے کامن ویلتھ گیمز شروع ہونے جارہے ہیں اور دنیا بھر کا میڈیا ان کھیلوں کی کوریج کے لئے بھارت میں موجود ہے ، اگرعدالتی فیصلے پر دوبارہ فسادات چھڑ گئے تو یہ پوری دنیا میں جگ ہنسائی کا سبب ہوگا تاہم عدالت نے یہ درخواست مسترد کردی ہے۔
اس تمام صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ایودھیہ میں سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے ، ساتھ ہی حکومت نے سیاسی رہنماوٴں سے امن و امان بنائے رکھنے کی اپیل کی ہے۔

امریکہ نے پاکستان میں ڈرون حملے بڑھا دیے،

امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ  امریکہ کی جانب سے پاکستان کے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں موجود دہشت گردوں کے خلاف فضائی آپریشن تیز کردیا گیا ہے تاکہ ان عناصر کی  پڑوسی ملک افغانستان میں مغربی اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت میں کمی لائی جاسکے۔
امریکی انتظامیہ کے اعلیٰ اہلکاروں کے مطابق امریکی سی آئی اے کی جانب سے پاکستانی  قبائلی علاقوں میں ستمبر کے مہینے میں 20 سے زائد ڈرون حملے کیے گئے جو کسی بھی ایک ماہ میں کیے جانے والے حملوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ حکام کے مطابق حملوں میں اضافہ کا مقصد پاکستانی قبائلی علاقوں میں مقیم دہشت گردوں کے حملوں سے افغانستان میں موجود مغربی اتحادی افواج کو محفوظ بنانا اور ان عناصر کی جانب سے مغربی ممالک کے خلاف کسی بھی قسم کی دہشت گردانہ کاروائی کا امکان  ختم کرنا ہے۔
امریکی حکام  بغیر پائلٹ کے اڑنے والے ڈرون طیاروں کو اپنا "قابلِ قدر ہتھیار" قرار دیتے ہیں کیونکہ ان طیاروں سے کیے جانے والے حملوں کی بدولت القاعدہ اور طالبان کے کئی مرکزی رہنما ہلاک کیے جاچکے ہیں۔ تاہم پاکستانی ذمہ داران اپنی سرزمین پر کیے جانے والے ڈرون حملوں پر کئی بار امریکی  حکومت سے  احتجاج کرتے ہوئے انہیں روکنے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ پاکستان کا موقف ہے کہ اس کی سرزمین پر اس طرح کے حملے اس کی خودمختاری  کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
موقر امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ سی آئی اے کی جانب سے پاکستان میں ڈرون حملوں کی تعداد میں اضافہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب نیٹو فوجیوں کو افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ میں طالبان کے ہاتھوں شدید جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

سینئر القاعدہ رہنما ڈرون حملے میں ہلاک

سینئر القاعدہ رہنما ڈرون حملے میں ہلاک
پاکستانی حکام نے کہا ہے کہ ملک کے شمال مغربی قبائلی علاقے میں مشتبہ امریکی میزائل حملے میں القاعدہ کے ایک سینئر  لیڈر ہلاک ہوگئے ہیں۔
عہدے داروں نے منگل کو کہا کہ شیخ الفتح اور تین دیگر عسکریت پسند اتوار کو شمالی وزیرستان میں سفر کر رہے تھے جب  اُن کی گاڑی میزائل کی زد میں آئی۔
فتح کے بارے  میں  بتایا جاتا ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان میں القاعدہ کے آپریشنل کمانڈر تھے جِنھوں نے یہ ذمہ داری مصطفیٰ ابو الیزید سے لی تھی جو مئی میں ہونے والے ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔
ہمسایہ افغانستان میں باغیوں کےحملوں کو روکنے کے لیے  امریکہ نے پاکستان کے شمال مغرب میں عسکریت پسندوں کے خلاف  ڈرون حملوں کو تیز تر کر دیا ہے۔
نامعلوم عہدے داروں نے منگل کو بتایا کہ  ستمبر میں امریکہ کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی نے مسلح ڈرون طیاروں کی مدد سے 20حملے کیے، جِس میں سے زیادہ تر ایک ہی  ماہ میں کیے گئے۔
ایک اور حملہ منگل کو ہوا۔ پاکستانی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ایک مشتبہ امریکی میزائل حملے  میں جنوبی وزیرستان کے قبائلی علاقے میں چار عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔
امریکی عہدے داروں نے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں بین الاقوامی فورسز کے خلاف حملوں کو روکنے کے لیے اپنی کارروائیاں تیز کر رہے ہیں تاکہ پاکستان میں سرگرم عسکریت پسندوں کی طرف  سے ممکنہ دہشت گرد منصوبوں  میں رکاوٹ ڈالی جاسکے۔

زمانہ نُور ہے آجانے سے تیرے

ایران:’سائبر میزائل‘ نے متاثر کیا‘

ایران:’سائبر میزائل‘ نے متاثر کیا‘

ایران کے خلاف ایک الیکٹرانک جنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے: محمود لیائی
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی کا کہنا ہے کہ کمپیوٹر وائرس سٹکسنیٹ نے جوہری بجلی گھر میں کام کرنے والے ملازمین کے ذاتی کمپیوٹرز کو متاثر کیا ہے۔
اس کمپیوٹر وائرس سٹکسنیٹ کو ’سائبر میزائل‘ کا نام دیا جا رہا ہے اور ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی تیاری میں کسی ریاست نے حصہ لیا ہے۔
ایران کے پہلے جوہری بجلی گھر بوشہر کے پروجیکٹ مینیجر محمود جعفری کا کہنا ہے کہ وائرس سے جوہری بجلی کے آپریٹنگ سسٹم کو نقصان نہیں پہنچا ہے۔ بجلی گھر کے آپریٹنگ سسٹم کو آن لائن ہونے میں ابھی چند ہفتے لگیں گے۔
واضح رہے کہ سٹکسنیٹ ایسا پہلا وائرس یا وورم ہے جس کا مقصد حقیقی دنیا کی تنصیبات جیسے کہ بجلی گھر، پانی صاف کرنے کے کارخانے اور صنعتی یونٹ ہیں۔
کلِک ’سٹکسنیٹ وائرس کا ہدف ایران تھا‘
ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ایرنا کے مطابق محمود جعفری نے کہا ہے کہ جوہری بجلی گھر میں کام کرنے والے سٹاف کے ذاتی کمپیوٹرز میں سٹکسنیٹ وائرس کی نشاندہی ہوئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ’ جوہری بجلی گھر کا آپریٹنگ سسٹم اس وائرس سے متاثر نہیں ہوا ہے جبکہ آپریٹنگ سسٹم اگلے ماہ آئن لائن ہو گا۔‘
محمود جعفری نے بتایا کہ ایک ٹیم سٹاف کے متعدد کمپیوٹرز سے وائرس کو ہٹانے یا صاف کرنے پر کام کر رہے ہیں۔
ماہرین کے ایک گروپ سے گزشتہ ہفتے ملاقات میں اس وائرس سے نمٹنے کے طریقہ کار پر بات چیت ہوئی ہے، اس وائرس سے اب تا ایران میں تیس ہزار ’آئیپی ایڈرسسز‘ متاثر ہو چکے ہیں۔
محمود لیائی
ایران کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کونسل کے سربراہ محمود لیائی نے سرکاری اخبار کو بتایا ہے کہ ’ ایران کے خلاف ایک الیکٹرانک جنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ماہرین کے ایک گروپ سے گزشتہ ہفتے ملاقات میں اس وائرس سے نمٹنے کے طریقہ کار پر بات چیت ہوئی ہے، اس وائرس سے اب تا ایران میں تیس ہزار ’آئی پی ایڈرسسز‘ متاثر ہو چکے ہیں۔
اس سے پہلے ماہرین نے بتایا تھا کہ دنیا میں اب تک سامنے آنے والے سب سے کارگر کمپیوٹر وائرسز میں سے ایک ’سٹکسنیٹ‘ کا ہدف ممکنہ طور پر ایرانی انفراسٹرکچر تھا۔
یہ حقیقت کہ اس وائرس نے ایران میں بقیہ دنیا کی نسبت زیادہ نقصان پہنچایا ہے ہمیں اس بات کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ اس کا ہدف ایران ہی تھا اور ایران میں ایسا کچھ ہے جو اس وائرس کو تخلیق کرنے والوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے
لیئم او مرچو
کچھ محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سٹکسنیٹ کی پیچیدگی اس بات کی مظہر ہے کہ اس کی تیاری کسی ملک کا کام ہے۔
اس کی نشاندہی پہلی مرتبہ رواں سال جون میں ہوئی تھی اور تب سے اس پر تحقیق جاری ہے۔
کمپیوٹر سکیورٹی کمپنی سمنٹیک سے تعلق رکھنے والے لیئم او مرچو نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ حقیقت کہ اس وائرس نے ایران میں بقیہ دنیا کی نسبت زیادہ نقصان پہنچایا ہے ہمیں اس بات کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ اس کا ہدف ایران ہی تھا اور ایران میں ایسا کچھ ہے جو اس وائرس کو تخلیق کرنے والوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے‘۔
سمنٹیک کی ابتدائی تحقیق کے مطابق اس وائرس کے نتیجے میں ہونے والی خرابیوں میں سے ساٹھ فیصد ایران میں ہوئیں جبکہ بھارت اور انڈونیشیا میں بھی اس وائرس کا اثر دیکھا گیا۔

Sunday, September 26, 2010

سیلاب متاثرین کی انوکھی امداد

سیلاب متاثرین کی انوکھی امداد
سیلاب متاثرین میں امداد کی تقسیم فائل فوٹو
دیہات کے دو سو افراد میں ایک کروڑ روپے تقسیم کیے گئے ہیں
پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی امداد کے بارے میں غیر ملکیوں میں بے یقینی کی صورتحال پائی جاتی ہے اور اکثر لوگوں کے ذہنوں میں یہ سول ابھرتا ہے کہ آیا یہ امداد حقدار تک پہنچ پائے گی یا نہیں۔
اس بے یقینی کو ختم کرنے کے لیے ترکی کے کچھ افراد نے صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں امداد کی فراہمی کا ایک انوکھا طریقہ اپنایا اور ایک گاؤں کے دو سو متاثرین میں چاول دینے کے بہانے ایک کروڑ روپے بھی تقسیم کر دیے۔
یہ واقعہ ڈیرہ اسماعیل خان شہر سے تیس کلومیٹر دور شمال مشرق میں واقع ضلع کیچ میں پیش آیا۔
پاکستان میں بین الاقوامی سطح پر بداعتمادی کی یہ صورتحال ہے کہ مخیر حضرات بھی نہ تو حکومت اور نہ ہی مقامی انتظامیہ اور قبائلی رہنماؤں پر اعتماد کرتے ہیں۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ عید سے پہلے اُن کے شہر کے سابق ناظم کے پاس ترکی کے کچھ لوگ آئے اور انھوں نے متاثرہ افراد کی فرست طلب کی اور کہا کہ ان کے پاس کچھ چاول ہیں جو متاثرہ افراد کو دینا چاہتے ہیں۔
کیچ کے ایک متاثرہ شخص جمال دین نےبتایا کہ علاقے میں دو سو افراد کی ایک فہرست تیار کی گئی جو حالیہ سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور یہ فہرست ترکی سے آئے ہوئے افراد کو دی گئی۔
چند روز پہلے گاؤں کی مسجد میں پولیس کے پہرے میں ہر متاثرہ شخص کو شناختی کارڈ دیکھ کر پانچ کلو چاول اور ایک لفافہ دیا گیا۔ متاثرین نے امداد وصول کرنے کے بعد جب لفافہ کھولا تو ہر لفافے میں پچاس پچاس ہزار روپے تھے۔
چند روز پہلے گاؤں کی مسجد میں پولیس کے پہرے میں ہر متاثرہ شخص کو شناختی کارڈ دیکھ کر پانچ کلو چاول اور ایک لفافہ دیا گیا۔ متاثرین نے امداد وصول کرنے کے بعد جب لفافہ کھولا تو ہر لفافے میں پچاس پچاس ہزار روپے تھے۔
امداد وصول کرنے والے ایک شخص محمد فاضل نے بتایا کہ رقم دیکھ کر انھیں بہت حیرانی ہوئی اور خوشی بھی ہوئی کیونکہ جس سطح کی تباہی اُن کے علاقے میں ہوئی ہے اسے وہ اپنے وسائل سے پورا نہیں کر سکتے تھے۔ اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک شخص حکیم صلاح الدین نے بتایا ہے کہ اس امداد کی وصولی کے بعد لوگوں نے اپنے مکان مرمت کرنا شروع کر دیے ہیں۔
ان لوگوں کو یہ علم نہیں ہے کہ ترکی سے آنے والے یہ افراد کون تھے اور یہ امداد کس نے فراہم کی ہے، مقامی لوگوں کا کہنا ہے یہ رقم ترکی کے مخیر حضرات نے فراہم کی ہے۔
پاکستان میں بین الاقوامی سطح پر بداعتمادی کی یہ صورتحال ہے کہ مخیر حضرات بھی نہ تو حکومت اور نہ ہی مقامی انتظامیہ اور قبائلی رہنماؤں پر اعتماد کرتے ہیں اور ایسے کئی واقعات پیش آچکے ہیں جہاں امدادی سامان کی تقسیم پر جھگڑے ہوئے ہیں اور کئی مقامات پر امداد مسحقین تک نہیں پہنچ پائی۔

اور اب عید میلادالنبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے جلوسوں پر فائرنگ

افغان مہاجرین کی دوبارہ رجسٹریشن

افغان مہاجرین کی دوبارہ رجسٹریشن

پاکستان میں قریباً سترہ لاکھ رجسٹرڈ افغان پناہ گزین موجود ہیں
پاکستان میں مقیم رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کی دوبارہ رجسٹریشن کا کام شروع کر دیا گیا ہے اور اب پہلی مرتبہ پناہ گزینوں کے اٹھارہ سال سے کم بچوں کو پیدائش کا سرٹیفیکٹ بھی جاری کیا جائے گا۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے حکام نے بتایا ہے کہ یہ رجسٹریشن کارڈ ان پناہ گزینوں کو جاری کیے جا رہے ہیں جو پہلے سے رجسٹرڈ ہیں لیکن ان نئے کارڈ کی مدت دو ہزار بارہ تک ہوگی اور اس دوران افغان پناہ گزین قانونی طور پر پاکستان میں رہ سکیں گے جس کے بعد ان کی وطن واپسی کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔
یو این ایچ سی آر کے پشاور میں موجودہ عہدیدار قیصر آفریدی نے بتایا کہ اب پہلی مرتبہ افغان پناہ گزینوں کے بچوں کو پیدائش کا سرٹیفیکیٹ بھی جاری کیا جائے گا جس پر کام شروع کر دیا گیا ہے اور نئے رجسٹریشن کارڈز کے ہمراہ پناہ گزینوں کے بچوں کو پیدائش کے سرٹیفیکیٹس بھی جاری کیے جائیں گے۔
برتھ سرٹیفیکیٹ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے پناہ گزینوں کے بچوں کو شہریت دے دی گئی ہے بلکہ اس سرٹیفیکیٹ سے ان بچوں کو بنیادی تمام سہولیات دستیاب ہوں گی۔
قیصر آفریدی
انھوں نے کہا کہ یہ سرٹیفیکیٹ بچوں کے بنیادی حقوق میں شامل ہے اور اس میں اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچے ہی شامل ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ اس بارے میں فیصلہ یو این ایچ سی آر ، حکومت پاکستان اور افغانستان کے حکام کے مابین اس سال مارچ میں ہونے والے اجلاس میں کیا گیا تھا جس پر عملدرآمد اب کیا جا رہا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں قیصر آفریدی نے کہا کہ اس سرٹیفیکیٹ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے پناہ گزینوں کے بچوں کو شہریت دے دی گئی ہے بلکہ اس سرٹیفیکیٹ سے ان بچوں کو بنیادی تمام سہولیات دستیاب ہوں گی۔
افغان پناہ گزینوں نے اس اقدام کو بچوں کے مستقبل کے لیے بہتر قرار دیا ہے اور کہا ہے ان کے بچے اب اچھے تعلیمی اداروں میں تعلیم بھی حاصل کر سکیں گے۔
دو ہزار نو کے سروے کے مطابق پاکستان میں کوئی سترہ لاکھ رجسٹرڈ افغان پناہ گزین موجود ہیں جو اب دو ہزار بارہ تک ہاں رہ سکتے ہیں۔
قیصر آفریدی کے مطابق افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اس سال مارچ سے اب تک کوئی نوے ہزار پناہ گزین واپس اپنے وطن چلے گئے ہیں جنھیں تمام سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔

قرآنی آیات پر اعتراض کی مذمت

قرآنی آیات پر اعتراض کی مذمت

مسلمانوں کے نزدیک قرآن میں نہ کوئی تبدیلی ہوئی ہے اور نہ ہوگی
مصر کے سب سے معتبر عالمِ دین نےایک کوپٹک عیسائی پادری کے اس بیان کی شدید مذمت کی ہے جس میں انہوں نے قرآن کی چند آیات کی اصلیت پر سوال اٹھائے ہیں۔
مصرمیں الاظہر مسجد کے امام احمد الطیب کا کہنا ہے کہ پادری کی جانب سے دیا گیا بیان قومی اتحاد کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
انہوں نے یہ بات پادری بیشوئی کے بیان کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر غور کے لیے بلائے گئے ایک خصوصی اجلاس میں کہی۔
یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے اور اس سے ایک ایسے وقت میں قومی اتحاد کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے جب اسے قائم رکھنا لازم ہے
امام احمد الطیب
پادری بیشوئی کا کہنا ہے کہ قرآن میں چند آیات ہیں پیغمبرِ اسلام کی وفات کے بعد شامل کی گئی ہیں۔ ان کے مطابق قرآن کی کچھ آیات عیسائی عقائد سے متصادم ہیں اور وہ مانتے ہیں کہ انہیں قرآن میں پیغمبرِ اسلام کی وفات کے بعد حضرت عثمان کے دور میں قرآن میں شامل کیا گیا۔
امام احمد کا کہنا تھا کہ ’یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے اور اس سے ایک ایسے وقت میں قومی اتحاد کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے جب اسے قائم رکھنا لازم ہے‘۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس قسم کے بیانات کے سنگین نتائج مصر اور دیگر اسلامی ممالک میں سامنے آ سکتے ہیں۔
یہ سوال کہ آیا قرآن میں کچھ آیات پیغمبر کی رحلت کے بعد شامل کی گئیں نہ تو تنقید ہے اور نہ الزام۔ یہ ایک مخصوص آیت کے بارے میں صرف ایک سوال ہے جو کہ میرے نزدیک عیسائی عقائد سے متصادم ہے۔
پادری بیشوئی
تاہم پادری بیشوئی نے یہ بھی کہا ہے کہ قرآن سے متعلق ان کے اس بیان کا مقصد اسلام کی روح پر حملہ کرنا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ سوال کہ آیا قرآن میں کچھ آیات پیغمبر کی رحلت کے بعد شامل کی گئیں نہ تو تنقید ہے اور نہ الزام۔ یہ ایک مخصوص آیت کے بارے میں صرف ایک سوال ہے جو کہ میرے نزدیک عیسائی عقائد سے متصادم ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھ نہیں سکتا کہ اسے اسلام پر حملہ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ امت مسلمہ کا یہ ماننا ہے کہ قرآن ان آیات کا مجموعہ ہے جو خدا نے اپنے فرشتے جبرئیل کے ذریعے پیغمبرِ اسلام پر وحی کی صورت میں نازل کیں اور اس الہامی کتاب میں اس کے نزول کے وقت سے نہ کوئی تبدیلی ہوئی ہے اور نہ قیامت تک ہوگی۔

سیالکوٹ:سابق ڈی پی او کی ضمانت

مقتول بھائی
سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو سر عام تشدد سے ہلاک کرنے کے واقعے کے ملزم سیالکوٹ کے سابق ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر وقار چوہان کی درخواست ضمانت گجرانوالہ کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج سید افتخار حسین شاہ نے منظور کر لی ہے۔
اس کیس میں سپیشل پراسیکیوٹر رانا بختیار ایڈوکیٹ نے بتایا کہ سنیچر کو وقار چوہان کی جانب سے دائر درخواست ضمانت پر دونوں جانب کے وکلاء نے دلائل پیش کیے جس کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا اور پھر دو گھنٹے کے بعد عدالت درخواست ضمانت منظور کرنے کا فیصلہ سنایا اور ایک لاکھ روپے کا مچلکہ جمع کرانے کی ہدایت دی۔
سیالکوٹ میں دو بھائیوں مغیث اور منیب کو سر عام تشدد سے ہلاک کرنے کے اس واقعے میں دس پولیس افسران اور اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
رانا بختیار کے مطابق اس سارے معاملے میں سابق ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر وقار چوہان کا قصور سب سے کم تھا کیونکہ وہ جائے وقوعہ پر اس وقت پہنچے جب ان دونوں بھائیوں کی موت واقع ہو چکی تھی اور ان کو الٹا لٹکایا جا چکا تھا جبکہ باقی پولیس اہلکار اس سارے واقعے کے دوران جائے قوعہ پر موجود تھے۔
گزشتہ ماہ سیالکوٹ کے قریبی گاؤں بٹر میں دو سگے بھائیوں اٹھارہ برس کےحافظ مغیث اور پندرہ برس منیب کو رسیوں سے باندھ کر ڈنڈوں سے تشدد کر کے ہلاک کیا گیا تھا۔